وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس نے وزارت توانائی و پاور ڈویژن کی سفارش پر بگاس سے چلنے والے 8 انڈیپنڈنٹ پاور پلانٹس کے ساتھ سیٹلمنٹ معاہدوں کی منظوری دے دی۔ ان معاہدوں کے بعد عام صارفین کیلئے بجلی کی قیمت کم اور قومی خزانہ کو 238 ارب روپے کا فائدہ ہو گا۔مذکورہ پاور پلانٹس میں جے ڈی ڈبلیو یونٹ I ، یونٹ ،II آر وائے کے ملز، چنیوٹ پاور، حمزہ شوگر، المعیز انڈسٹریز، تھل انڈسٹریز اور چنار انڈسٹری شامل ہیں۔ اس موقع پر وزیراعظم نے کہا حکومت عام آدمی کے لئے بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہی ہے۔ ہمارے ہر فیصلے اور اقدام میں قومی مفاد مقدم رہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں نجی شعبے اور صنعتوں کا فروغ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اس وقت 101 آئی پی پیز کام کر رہی ہیں جن میں فرنس آئل پر چلنے والے کارخانوں کی تعداد 15، گیس اور آر ایل این جی پر چلنے والے پاور پلانٹس کی تعداد 19، پانی سے بجلی بنانے والی آئی پی پیز کی تعداد چار، درآمدی کوئلے پر چلنے والے پلانٹس کی تعداد تین، تھر کے کوئلے پر چلنے والے پلانٹس کی تعداد پانچ اور بیگاس پر چلنے والے پاور پلانٹس کی تعداد آٹھ ہے۔ جبکہ سورج کی روشنی سے بجلی بنانے والے پلانٹس کی تعداد 10 اور ہوا سے بجلی بنانے والے پلانٹس کی تعداد 36 ہے۔
حکومت کی طرف سے پہلے ہی پانچ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم کئے جا چکے ہیں۔جن پانچ بجلی بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے ختم ہونے کا اعلان کیا گیا تھا ان میں حبکو پاور کمپنی، لائل پور پاور کمپنی، روش پاور، صبا پاور پلانٹ اور اٹلس پاور پلانٹ شامل ہیں۔ان پانچ پاور پلانٹس کی بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت 2400 میگاواٹ تھی۔ سرکاری حکام کے مطابق ان کمپنیوں سے معاہدوں کے خاتمے کے بعد ان پاور پلانٹس کو کپیسٹی پیمنٹ کی ادائیگی نہیں کی جائے گی۔ اب مزید آٹھ نجی پاور کمپنیوں کے ساتھ سیٹلمنٹ ہوئی ہے۔ باقی 88 آئی پی پیز بچ گئی ہیں جن کو پرانے معاہدوں پر کپیسٹی پیمنٹ کی جارہی ہے۔ان آئی پی پیز میں حکومتی آئی پی پیز بھی شامل ہیں جن میں پانی اور نیوکلئیر ذرائع سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس بھی شامل ہیں۔یہ سستی ترین بجلی کی پیداوار کے ذرائع ہیں مگر ان سے بھی سستی بجلی سورج کی روشنی (سولر)اور ہوا (ونڈ )سے حاصل کی جاتی ہے۔
پاکستان میں بجلی کی کمی ہمیشہ سے بہت بڑا مسئلہ رہا ہے۔ اس سے بھی بڑا اور سنگین مسئلہ اب اس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کا ہے۔قیمتوں میں اضافے کی بات ہوتی ہے تو فوری طور پر آئی پی پیزاور ان کی کپیسٹی پیمنٹ کی طرف اشارہ کر دیا جاتا ہے:کپیسٹی پیمنٹ سے مراد وہ ادائیگی ہے جو ہر ماہ صارف کی جانب سے بجلی بنانے والی کمپنی کو اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے کی جاتی ہے جو صارفین کی جانب سے بجلی کی اضافی ڈیمانڈ کی صورت میں مہیا کی جا سکے لیکن جب کوئی پلانٹ اپنی پوری صلاحیت پر اس لیے بجلی پیدا نہیں کرتا کہ ملک میں اس کی ضرورت نہیں ہوتی، ایسے وقت میں ان پاور پلانٹس کو فعال رکھنے کے لیے کپیسٹی پیمنٹ کی جاتی ہے۔جب معاہدے ہوئے تھے توان پلانٹس نے جو رقم خرچ کی اس کی واپس ادائیگی کے ’ٹیک اینڈ پے‘ کے معاہدے کیے گئے تھے کہ بجلی خریدنے یا نہ خریدنے کی صورت میں ادائیگی کرنی ہو گی جو کپیسٹی پیمنٹ ہوتی ہے تاہم اب جن کمپنیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی ہو رہی ہے اس کے بعد ’ٹیک اینڈ پے‘ یعنی بجلی خریدو اور ادائیگی کرو والی صورتحال ہو گی۔معاہدوں سے عام صارفین کے لیئے بجلی کے نرخوں میں کمی ہو گی اور خزانے کو 238 ارب روپے کا فائدہ ہو گا۔
نیپرا کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ایک سال میں بجلی کمپنیوں نے قومی خزانے کو 661 ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔ان اعداد و شمار کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام نجی پاور کمپنیوں سے مستقل خلاصی پانے کی کوشش کی ضرورت ہے۔ یہ کمپنیاں قومی معیشت کے لیئے آکاس بیل ہیں۔ بجلی کے نرخوں میں ناقابل برداشت اضافہ بھی انہی کمپنیوں کو بغیر پیداوار کے اربوں روپے سالانہ ادا کرنے کے باعث ہوا ہے۔ بجلی کی پیداوار کے دوسرے سستے ذرائع بروئے کار لائے جا سکتے ہیں۔
کچھ کمپنیز کی طرف سے رضا کارانہ طور پر بجلی کے نرخ کم کرنے کے ساتھ ساتھ کپیسٹی پیمنٹ وصول نہ کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔ان کے ساتھ بلا تاخیر معاہدوں پر نظر ثانی کر لی جانی چاہیئے۔جس کو بنیاد بناتے ہوئے باقی آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات ہوسکتے ہیں۔سب سے پہلے تو حکومتی آئی پی پیز کیساتھ متعلقہ اداروں کو نظر ثانی کے معاہدے کرنے چاہئیں۔حکومت اگر تمام آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو بجلی کی قیمتوں میں نمایاں کمی کا امکان ہے۔اس کے بعد بھی بجلی کے نرخوں میں مزید کمی کے لئے ایسے ذرائع پر انحصار کرنا ہوگا جن سے بہت ہی کم لاگت پر بجلی پیدا ہو سکتی ہے۔ان میں ایک ہائیڈل منصوبہ ہے۔پانی سے بننے والی بجلی آج بھی دو ڈھائی روپے فی یونٹ میں پڑ رہی ہے۔سولر اس سے بھی سستا ذریعہ ہے۔ایک دفعہ اس پر اخراجات آتے ہیں اس کے بعد ہمیشہ کے لیے بغیر کسی خرچ کے بجلی پیدا ہوتی رہتی ہے۔مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی سطح پر سولر پینل لگانے والے صارفین کی قدرے حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ کئی اداروں اور کچھ ملازمین کو فری بجلی بھی مفت فراہم کی جاتی ہے۔ ان اداروں کی عمارتوں اور ملازمین کے گھروں کومکمل طور پر سولر پر منتقل کیا جاسکتا۔کئی اداروں کی بلڈنگوں کی چھتیں کنالوں تک محیط ہیں۔ان کو آسانی کے ساتھ سولر پر منتقل کیا جا سکتا ہے۔