مذاکرات کا دور ، پی ٹی آئی کا ایک اور یو ٹرن!!!!!

پاکستان تحریک انصاف کی خاص بات یہ ہے کہ جو کام سب سے آخر میں کرنا ہو وہ سب سے پہلے کرتے ہیں اور جو کام سب سے پہلے کرنا ہو وہ سب سے آخر میں کرتے ہیں۔ یوٹرن لینے میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ غلطیاں کرتے ہیں لیکن غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے عذر گناہ بدتر از گناہ والی آپشن زیادہ پسند کرتے ہیں یعنی اپنی غلطیوں کو درست ثابت کرنے کیلئے توانائیاں اور وقت صرف کرتے ہیں۔ جیسا کہ اب یہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ حالانکہ یہ کام سب سے پہلے ہونا چاہیے تھا لیکن احتجاج کر لیا، مظاہرے کر لیے، آگ لگا دی، خون بہا لیا، سڑکیں بند کروائیں، ڈنڈے مارے اور کھائے بھی، گرفتاریاں ہوئیں اور ضمانتیں بھی لیکن پی ٹی آئی کو باوجود بار بار سمجھانے کے یہ سمجھ نہ آ سکی کہ ملک میں پارلیمانی جمہوریت قائم ہے، یہاں ایک حکومت ہے اس حکومت میں مختلف سیاسی جماعتیں ہیں، صوبوں میں صوبائی اسمبلیاں ہیں، ایک سینیٹ اور قومی اسمبلی بھی ہے، جہاں سینکڑوں منتخب نمائندے موجود ہیں۔ ان حالات میں کوئی بھی مسئلہ ہو تو یہ سب سے اہم ہے کہ اسمبلیوں میں بات کریں، وہاں مسائل اٹھائیں، بات کریں، بات چیت سے مسائل حل کرنے کے رواج کو فروغ دیں، سیاسی جماعتوں کو دشمن نہ بنائیں، دشمن مہ سمجھیں، ہر وقت خود کو عقل کل اور درست نہ سمجھیں، لوگوں کو راستہ دیں، موقع دیں ان سے بات چیت کریں یہی وہ لوگ ہیں جن کے ذریعے راستہ نکلنا ہے، جن کے ذریعے راستہ بننا ہے، جہاں کچھ لیں دین ہونا ہے یہی وہ فورم ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف نے اسمبلی میں ہونے کے باوجود اس کے برعکس وہ راستہ اختیار کیا، جہاں غلطی کا امکان زیادہ موجود تھا، جہاں بدگمانی کا امکان تھا اور جہاں مشکلات میں اضافہ ممکن تھا۔ اس دوران انہوں نے یہ بھی کہا ہم ان سے کیوں بات کریں، ان کے پاس تو اختیار ہی نہیں، حکومت سے مذاکرات نہیں ہو سکتے، یعنی ہر وہ کام جو پی ٹی آئی کر سکتی تھی وہ اس نے کیا اور سب سے آخر میں انہوں نے مذاکرات کا راستہ بھی اختیار کر ہی لیا۔ اب خبر یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو یہ احساس ہوا ہے کہ اور کچھ نہیں تو کم از کم مذاکرات ہی کر لیتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو سیاسی راستے کھلے رکھنے چاہیں، دروازے بند تو وہ کرتے ہیں جو بات چیت نہ کر سکتے ہوں، ڈیڈ لاک تو وہاں ہوتا ہے جہاں فریقین پھنس اور الجھ جائیں، سیاست تو بند دروازوں کو کھولنے کا نام ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان تحریک انصاف نے اس کا مطلب مکمل طور پر بدلا اور دروازے بند کرنے کو سیاست سمجھ لیا۔ مذاکرات کے دروازے بند کرنے کے فیصلے نے پاکستان تحریک انصاف کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور مستقبل قریب میں بھی اس کے اثرات سامنے آتے رہیں گے۔ اب مذاکرات شروع ہوئے ہیں تو اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ جو باہر ہیں ان انہیں ذرا سہولت ملے گی۔ 
اب خبر یہ ہے کہ وہ فاقی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان رابطے بحال ہونے کے بعد مذاکرات کے لیے پارلیمنٹ کا پلیٹ فارم استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پارلیمنٹ کا فورم استعمال کرنے کی تجویز سپیکر نے دی۔ اسی سلسلے میں سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے پی ٹی آئی رہنماؤں بیرسٹر گوہر، عمر ایوب، صاحبزادہ حامد رضا نے سپیکر ہاؤس میں ملاقات کی ہے اس موقع پر وزیر قانون و پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ بھی موجود تھے۔ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات بغیر کسی پیشگی شرائط کے ہوں گے، مذاکرات کا مقصد ملک میں سیاسی عدم استحکام اور جاری تناو میں کمی لانا ہے۔ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ پی ٹی آئی نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے رابطہ کیا۔ اتحادیوں کی حکومت نے مفاہمت کی فضا پیدا کرنے کے لیے پی ٹی آئی کی مذاکرات کی پیش کش قبول کی ہے۔ یاد رہے جو آج مذاکرات کے لیے رضامند ہوئے ہیں، وہ کام جس سے انکار کرتے آئے ہیں آج انہیں بھی سمجھ آئی ہے کہ سیاست میں مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہوتا ہے۔ کاش یہ وقت ضائع نہ کرتے، کچھ حاصل کرنے کے لیے انتشار اور بدامنی کا راستہ اختیار نہ کرتے تو حالات مختلف بھی ہو سکتے تھے لیکن جس جماعت میں علی امین گنڈا پور جیسی جذباتی شخصیات قیادت کر رہی ہوں وہاں کسی دشمن کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس جماعت کے جذباتی کارکنوں کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ میدان سیاست میں ایسے فیصلے ہوتے ہیں ۔ عین ممکن ہے ان کی زندگی میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے اس لیے ایسے تمام ووٹرز سپورٹرز اسے ناکامی سمجھنے کے بجائے سیاسی تربیت کے طور پر دیکھیں۔
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان مذاکرات میں نہایت سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے، جہاں جہاں آئین اور قانون اجازت دیتا ہے، انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہیں پی ٹی آئی کو اس کی جگہ دی جائے۔ ان مذاکرات بارے کم سے کم میڈیا سے بات کی جائے، تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ میڈیا میں غیر ضروری بیان بازی اور طعنوں سے گریز کریں۔ سیاسی استحکام اور سیاسی درجہ حرارت، تناو کم کرنے کے لیے مذاکرات بند کمرے میں ہونے چاہیں نا کہ ٹیلیویژن پر۔
پاکستان کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ ایک اچھی پیشرفت ہے ملک کو معاشی استحکام اور اصلاحات کی ضرورت ہے یہ ہدف اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہ ہو۔ اس وقت تک بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے۔ پی ٹی آئی قیادت کو بھی چاہیے اب اگر مذاکرات کی طرف آئے ہیں تو بامقصد مذاکرات کریں، ایک صوبے میں آپ کی حکومت ہے وہاں کام کریں ملک کی خدمت کریں۔
آخر میں امیر مینائی کا کلام
ہوئے  نام وَر  بے  نشاں   کیسے   کیسے
زمیں  کھا  گئی  آسماں  کیسے  کیسے
تری بانکی چتون نے چْن چْن کے مارے
نکیلے  سجیلے   جواں   کیسے   کیسے
نہ  گْل  ہیں  نہ  غْنچے  نو  بْوٹے نہ پتے
ہوئے   باغ   نذرِ   خزاں   کیسے   کیسے
یہاں  درد  سے  ہاتھ   سینے   پہ   رکھا
وہاں  ان  کو  گزرے  گْماں کیسے کیسے
ہزاروں  برس  کی   ہے   بْڑھیا  یہ  دنیا
مگر  تاکتی  ہے   جواں   کیسے   کیسے
ترے  جاں  نثاروں  کے  تیور  وہی  ہیں
گلے  پر  ہیں  خنجر  رواں  کیسے کیسے
جوانی   کا   صدقہ   ذرا   آنکھ   اٹھاؤ
تڑپتے  ہیں  دیکھو  جواں  کیسے کیسے
خزاں  لْوٹ   ہی   لے   گئی   باغ   سارا
تڑپتے    رہے     باغباں     کیسے    کیسے
امیر اب  سخن  کی   بڑی  قدر   ہو  گی
پھلے  پھولیں  گے  نکتہ داں کیسے کیسے

ای پیپر دی نیشن