دو تو گئے اکٹّھے…

مقبول تاثر ہمیشہ درست نہیں ہوتا۔ شامی انقلاب کے بارے میں مقبول تاثر یہ ہے کہ اس کے پیچھے ترکی ہے۔ ترکی ہرگز نہیں ہے۔ وہ تو اس انقلاب کا مخالف تھا، بالخصوص ہئیت التحریر کا تو دشمن تھا۔ ترکی صرف اپنے وفادار دھڑے کا پاسدار تھا یعنی سیرین نیشنل آرمی جس کے ذریعے اس نے شمالی شام کی ایک سرحدی پٹّی پر قبضہ کر کے اسے بفرزون بنا دیا تھا۔ 2011ء میں جن لوگوں نے تحریک آزادی چلا کر 70 فیصد رقبے پر قبضہ کر لیا تھا، انہیں ترکی کی مدد حاصل نہیں تھی۔ اس انقلاب کو روس ، ایران نے کچل دیا تھا اور روس ، ایران کی مدد کرنے والوں میں جہاں امریکہ ، برطانیہ اور
 فرانس شامل تھے، وہیں ترکی بھی ان کے ساتھ تھا جس نے انقلابیوں پر دبائو ڈال کر حلب خالی کرا کے شام کی حکومت کے حوالے کیا۔ 
دوسرا مقبول تاثر ہے کہ شام کی جنگ آزادی میں بارہ یا پندرہ دھڑے ہیں اور یوں بڑی خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔ حقیقت ذرا مختلف ہے۔ ملاحظہ فرمائیے، شمال مشرق میں ایک بڑا رقبہ کردوں کے پاس ہے ان کی پارٹی کا نام ایس ڈی ایف (سیرین ڈیموکریٹک فرنٹ) ہے۔ اسے امریکہ کی تائید اور سرپرستی حاصل ہے۔ یہ سب سے بڑا رقبہ ہے جو کسی گروہ کے پاس ہے۔ اس کے مغرب میں ترکی کے زیر قبضہ بفرزون کا رقبہ ہے جو سیرین نیشنل آرمی کے کنٹرول میں ہے۔ شام کا سب سے زیادہ گنجان آباد اور اہم ترین علاقہ ہئیت التحریر کے پاس ہے جو ادلیب سے دمشق کے شمال تک پھیلا ہوا ہے۔ الیپو (حلب) حما، حمص وغیرہ کے شہر اسی میں ہیں اور اب تو انطاکیہ اور طرطوس بھی۔ مشرق میں ایک معقول رقبے پر امریکہ قابض ہے۔ حمص اور حما کے مشرق میں ، دیرالزور کے جنوب میں ایک وسیع رقبے پر داعش والے گھومتے ہیں دمشق اور جنوب میں الدرعا، السوویدا وغیرہ کا ایک محدود رقبہ ایک اور اتحاد کے پاس ہے جس میں تین چار جماعتیں ہیں۔ بس یہ کلی فریق ہیں۔ 
کردوں کے زیر قبضہ علاقے کا رقبہ وسیع ہے لیکن آبادی بہت کم۔ کوئی بڑا شہر نہیں ہے۔ حساقہ، الزمّہ، دیرانہ در شہر کم، قصبے زیادہ ہیں لیکن شام میں تیل کے ذخائر زیادہ تر اسی علاقے میں ہیں۔ 
نئی حکومت محمد البشیر کی وزارت عظمیٰ میں قائم ہو گئی ہے جن کا تعلق ہئیت التحریر سے ہے۔ ایک سوال یہ ہے کہ ترکی اس حکومت کو چلنے دے گا؟ ترکی ہر صورت میں کردوں کا خاتمہ چاہتا ہے۔ دو تین روز سے اس نے کردوں کی شہری آبادیوں پر بمباری تیز کر دی ہے۔ کودوں کے بچے ہلاک ہو رہے ہیں۔ ترکی چاہتا ہے کہ کردوں کو الگ رکھا جائے۔ گویا شامی اتحاد کو فی الوقت ایک ہی خطرہ ہے اور وہ ترکی سے ہے۔ ترکی تو اس سے دوستی بڑھا رہا تھا، دیکھا کہ اب وہ جا رہا ہے تو اس نے انقلابیوں سے دوستی کا دعویٰ کر دیا۔ رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی۔ 
اسرائیل نے  فضائی تاریخ کے سب سے بڑا آپریشن کر کے ڈیڑھ سو مقامات پر لگ بھگ ساڑھے تین سو بمباریاں کی ہیں اور شامی فوج کا چھوڑا ہوا ہتھیار خانہ تباہ کر دیا ہے۔ ان میں روایتی جنگی مشینری کے علاوہ ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر بھی شامل ہیں اور ہتھیار سازی کے کارخانے بھی۔ بہرحال شمال میں خاصی مقدار میں ہتھیار انقلابیوں نے پہلے ہی قبضے میں لے کر کہیں اور منتقل کر دئیے تھے۔ 
____
ایران نے انقلابیوں سے رابطے کر کے دوستی کی خواہش ظاہر کی ہے۔ اسے ’’زود پشیمانی‘‘ کہیئے یا کچھ اور۔ بہرحال شروع میں ہائے کا لفظ لگانے کی ضرورت نہیں۔ 
شامی انقلاب ایسا زلزلہ تھا جس نے ایران میں دراڑیں ڈال دیں۔ پوری تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ منتخب اداروں اور مذہبی حکمرانوں میں اختلاف ہوا اور مذہبی حکمرانوں کا یہ حکم مسترد کر دیا گیا کہ دس ہزار پاسداران کو شام روانہ کیا جائے۔ منتخب حکومت نے کہاکہ دس ہزار تو کیا، ایک پاسدار بھی نہیں جائے گا۔ مذہبی حکمران اعلیٰ پر تب سے خاموشی طاری ہے۔ 
مذہبی حکمرانوں پر اب دبے دبے الفاظ میں ، اپنوں اور پرایوں دونوں کی طرف سے تنقید ہو رہی ہے۔ اپنے یعنی مولوی حضرات کہہ رہے ہیں کہ آپ کا بندوبست پورا اور پکّا بیس تھا اور ’’مقبوضہ‘‘ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ پرانے یعنی عوامی حقے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں شام میں جانا ہی نہیں چاہیے تھا، اس سارے سودے میں ہم نے گھاٹا اور دشمنی کمائی۔ 
آنے والے دنوں میں یمن سے لاتعلقی کا عمل بھی شروع ہو سکتا ہے۔ اس کا پورا امکان ہے اور حالات دن بدن ایران کے مذہبی حکمرانوں کیلئے ناساز گار ہوں گے۔ 
یاد آیا۔ دس بارہ برس پہلے ایک سینئر ایرانی (مذہبی) رہنما نے بڑے فخر سے اعلان کیا تھا کہ عالم عرب کے چار دارالحکومتوں پر ہمارا قبضہ ہو گیا ہے۔ یعنی بغداد، دمشق، بیروت اور صنعا، اس کے بعد یہ فقرہ بہت سوں نے بہت بار دہرایا۔ یہاں تک کہ ہر کہہ و مہ کو حفظ ہو گیا۔
دو تو اکٹھے ہی گئے ہاتھ سے یعنی بیروت اور دمشق__ بچپن کی ایک اور قسم کی بات یاد آ گئی۔ والد مرحوم اور ان کے بعض دوست کبھی کسی کتاب کی بات کرتے تو اس طرح کا فقرہ کانوں میں پڑتا کہ یہ کتاب پاکستان میں کسی مکتبے سے نہیں مل رہی، لگتا ہے بیروت دمشق ہی سے منگانی پڑے گی۔ میرے ذہن میں یہ بات جم گئی کہ بیروت دمشق کسی ایک ہی شہر کا نام ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ دو الگ الگ ہیں۔ 
پھر تاریخ پڑھی تو پتہ چلا کہ ہیں تو دو، اصل میں ایک ہیں۔ ایک کتاب گھر میں ’’تاریخ شام و لبنان‘‘ تھی۔ یعنی شام اور لبنان بھی ظاہر دو، اصل میں ایک ہیں اور کچھ اور پیچھے چلے جائیں تو فلسطین اور کنعان (اردن) بھی دراصل شام ہیں، سب ملا کر بلاد شام کہلاتے ہیں۔ 
خیر باقی بچے دو یعنی صنعا اور بغداد__ بغداد کا موڈ ایسا ہے اور حالات بھی ایسے کہ وہ جزوی طور پر ایران کا اتحادی ہے۔ ایران کے مذہبی حکمرانوں نے عراق کو بھی حکم دیا تھا کہ مقامی ملیشیا روانہ کرو، اس نے بھی انکار کر دیا۔ اصل میں تو اب محض اور محض صنعا کا دم ہی غنیمت ہے لیکن تابہ کے؟ 
____
پٹی پٹائی پارٹی کے رہنما جناب چیخم دھاڑ خاں، معاف کیجئے گا، عمر ایوب خاں نے کمال فراخدلی سے اعلان کیا ہے کہ ان کی جماعت انسانوں اور فرشتوں، دونوں سے مذاکرات کیلئے تیار ہے۔ 
پہلے تو محض فرشتوں سے مذاکرات کی ضد تھی، اب حق الیقین ہو گیا کہ فرشتے گھاس تو کیا، گھاس کی پتّی بھی نہیں ڈالنے والے تو انسانوں کی پخ لگا دی۔ 
لگتا ہے کہ اب انسانوں کو بھی شاید پروا نہ ہو اس لئے کہ فرشتوں نے اس ’’چشمے‘‘ ہی کو فردجرم کے ڈھکنے سے ڈھک دیا ہے۔ جس کے فیض چیخم دھاڑ خاں، ان کی جماعت، ان کے مرشد اور ان کی مرشدانی کی جملہ پرورش ہوئی تھی۔ چشمہ فیض کی درگت کچھ یوں عبرت کا عنوان بننے والی ہے کہ خود مرشد اور مرشدانی اس کتاب عبرت کے صفحات کے مشمولات بن جائیں گے۔ 
فاعتبرو یا اولی الابصار!

ای پیپر دی نیشن