وطن عزیز میں کامل اقتدار واختیار کے خواہش مندوں کے درمیان ان دنوں سیاسی نہیں بلکہ نفسیاتی جنگ ہورہی ہے۔ جنگ کی اس قسم میں Message Controlنام کا حربہ کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ جنگ کی اس قسم کا اہم ترین ہتھیار ’’بیانیہ‘‘ ہوتا ہے۔ ’’بیانیہ‘‘ بہت تگڑا ہو تب بھی زیادہ توجہ اس حقیقت پر مرکوز رکھنا ضروری ہے کہ 24/7چلتی ٹی وی سکرینوں پر کون سا موضوع حاوی ہے۔ جو موضوع نام نہاد روایتی میڈیا پر حاوی ہوتا ہے اسے غیر روایتی میڈیا بھی زیر بحث لانے کو مجبور ہوجاتا ہے۔
’’نیوز سائیکل‘‘ اور ’’بیانیہ‘‘ کی جو گفتگو میں نے چھیڑی ہے اس کی وجہ گزشتہ چند دنوں کے چند واقعات ہیں۔ گزشتہ مہینے کی تقریباََ 13تاریخ کو اڈیالہ جیل میں مقید تحریک انصاف کے بانی نے اپنی ہمشیرہ کے ذریعے عاشقان عمران کو 24نومبر کے دن ملک بھر سے اسلام آباد پہنچنے کا حکم دیا۔ حکومت نے عاشقان کی پیش قدمی روکنے کے لیے اسلام آباد کے داخلی اور خارجی راستوں کو کنٹینروں کی دیوار چن کر ’’محفوظ‘‘ بنالیا۔ دارالحکومت میں احتجاجی قافلوں کو روکنے کے لئے اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی حکومت نے اپنے شہروں اور قصبوں کو دیگر شہروں اور قصبوں سے ملانے والی اہم ترین شاہراہوں کو ’’سالانہ مرمت‘‘ کے نام پر بند کردیا۔
پاکستان مگر ایک وفاق ہے۔ ہمارے صوبے مثالی خودمختاری کے حامل ہیں اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف برسراقتدار ہے۔ سرکاری وسائل کے بھرپور استعمال کے ذریعے وہاں کے وزیر اعلیٰ جناب علی امین گنڈاپور نے محمود غزنوی کی طرح ایک بار پھر اٹک پار کرنے کا ارادہ باندھ لیا۔ حکومت پنجاب اور اسلام آباد کی پولیس اور انتظامیہ تمام تر بڑھک بازی کے باوجود ان کے قافلے کو روک نہ پائیں۔ بالآخر شدید ترین پلس مقابلوں کے بعد خیبرپختونخوا سے آیا قافلہ اسلام آباد میں داخل ہوگیا۔
عمران خان کی اہلیہ محترمہ بشریٰ بی بی کے اندازِ سیاست کے بارے میں ہزاروں تحفظات کے باوجود میں یہ بات دہراتے رہنے کو مجبور ہوں کہ اگر اسلام آباد میں داخلے کا معاملہ فقط علی امین گنڈاپور اور تحریک انصاف کی قیادت کے سپرد ہوتا تو شاید ماضی کی طرح تحریک انصاف کے کارکن سنگ جانی میں ہوئے ایک جلسے کے بعد اپنے گھروں کو لوٹ جاتے۔ اب کی بار اس امرکی گنجائش ہی باقی نہ رہی کیونکہ بشریٰ بی بی ’’گھریلو اور پردہ دار خاتون‘‘ کی شناخت بھلاکر اپنے شوہر نامدار کی رہائی کی خاطر میدان میں اتریں اور اپنی قیادت میں کارکنوں کو حوصلہ دیتے ہوئے اسلام آباد کے ڈی چوک کے قریب پہنچادیا۔ 26نومبر2024ء کی شام جب ہزاروں افراد پر مشتمل یہ قافلہ اسلام آباد کے بلیوایریا کے اہم مراکز پر جمع ہوگیا تو مقامی انتظامیہ کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ یہ بات واضح تھی کہ اگر بشریٰ بی بی کی قیادت میں جمع ہوا قافلہ کسی نہ کسی صورت ڈی چوک پہنچ کر ڈی چوک میں دھرنا دے کر بیٹھ گیا تو ملک کے دیگر شہروں سے بھی تحریک انصاف کے کارکن ہر نوع کی رکاوٹیں توڑ کر وہاں پہنچ جائیں گے۔ 26نومبر کی شب لہٰذا ریاستی قوت کے بھرپور استعمال کے ذریعے مظاہرین پسپائی کو مجبور کر دیے گئے۔
اسلام آباد کو مظاہرین سے خالی کروانے کے لیے جس نوعیت کا آپریشن ہوا اس کی بدولت تحریک انصاف اپنے سینکڑوں کارکنوں کی ’’ہلاکت‘‘ اور ’’گمشدگی‘‘ کا دعویٰ فروغ دینے میں متاثر کن حد تک کامیاب ہوئی۔ روایتی میڈیا کے صحافی ان کی سوچ کی تشہیر نہ کرنے کے جرم میں ریاست کے ’’ٹائوٹ‘‘ تصور ہونا شروع ہوگئے۔ مجھ سادہ لوح کو یہ گماں تھا کہ ’’سینکڑوں لوگوں‘‘ کی ہلاکت والے دعویٰ کا تسلی بخش جواب دینے میں بہت دن گزر جائیں گے۔ مجھ جیسے پرانی وضع کے صحافیوں کے لیے بھی خود کو ’’ٹائوٹ‘‘ ہونے کی تہمت سے بچانا بہت مشکل ہوجائے گا۔
رواں ہفتے کا آغاز ہوتے ہی مگر مولانا فضل الرحمن دوبارہ میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ حکومت کو 26ویں ترمیم پاس کروانے میں مدد دینے کے بدلے انھوں نے دینی مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے ایک بل دونوں ایوانوں سے منظور کروایا تھا۔ صدرِ مملکت نے مگر اس پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ وہ بل نظر بظاہر پارلیمان کو دوبارہ غور کے لیے بھیج دیا گیا تو مختلف مسالک کے نمائندہ علماء کا ایک اجلاس دو سے زیادہ گھنٹوں تک ہمارے تمام ٹی وی چینلوں پر براہ راست دکھایا جاتا رہا۔ وہاں موجود علماء مصر رہے کہ وہ دینی مدارس کے حوالے سے اگست 2019ء میں پاس ہوئے ایک قانون سے مطمئن ہیں۔ انھیں وہ بل ہرگز درکار نہیں جس کے اطلاق پر مولانا فضل الرحمن اصرار کررہے ہیں۔
’’سینکڑوں کارکنوں‘‘ کی ہلاکت کا دعویٰ اس تاثر کی نذر ہوگیا کہ مختلف مسالک کے علماء کی کثیر تعداد یکجا ہو کر مولانا فضل الرحمن کی دینی مدارس کے معاملات پر ’’اجارہ داری‘‘ للکارنے کی تیار کررہی ہے۔ میرا وسوسوں بھر ا دل امکانی کش مکش کے مضمرات پر غور میں مصروف تھا تو منگل کی سہ پہر آئی ایس پی آر کی جانب سے اعلان کردیا گیا کہ عمران حکومت کے دوران ایک اہم ترین ریاستی ادارے کے مدارالمہام رہے فیض حمید صاحب کے خلاف لگائے الزامات کی تفتیش مکمل ہوگئی ہے۔ انھوں نے مبینہ طورپر اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ اب انھیں کورٹ مارشل کا سامنا کرنا ہوگا۔ فوج میں کورٹ مارشل معمول کے واقعات ہیں۔ فیض حمید مگر عمران حکومت برقرار رکھنے والے ’’تھمب(ستون)‘‘ شمار ہوتے تھے۔ ان کے خلاف کورٹ مارشل کی خبر شاید اتنی اہمیت کی حامل نہ ہوتی اگر اس کی خبر دینے والی پریس ریلیز میں یہ اطلاع بھی فراہم نہ ہوتی کہ فیض حمید کے خلاف 9مئی کے واقعات کے حوالے سے بھی تفتیش ہورہی ہے۔ یہ اطلاع دیتے ہوئے جو زبان استعمال ہوئی ہے وہ عندیہ دے ر ہی ہے کہ فیض حمید صاحب کو اب عمران خان سمیت تحریک انصاف کے کئی سرکردہ رہنمائوں کے نومئی کے علاوہ دیگر احتجاجی واقعات کے حوالے سے فوج کے ذریعے ہوئی تفتیش کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔ ’’نیوز سائیکل‘‘ پر اب فیض حمید اور ان کے تحریک انصاف کے بانی سمیت مذکورہ جماعت کے دیگر رہنمائوں کا مستقبل زیر غور ہے۔ سینکڑوں ہلاکتیں اور علماء کے مابین کش مکش اب ’’باسی خبریں‘‘ ہوگئی ہیں۔ دیکھتے ہیں فیض حمید کے کورٹ مارشل کی خبر کب تک ’’باسی‘‘ ہوجائے گی۔