اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے عام انتخابات 2024ء میں دھاندلی سے متعلق 3 درخواستیں عدم پیروی پر خارج کردیں۔ جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے 8 فروری 2024 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواست گزار قیوم خان، محمود اختر اور میاں شبیر عدالت پیش نہیں ہوئے۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی عام انتخابات 2024 میں دھاندلی کے خلاف درخواست پر سماعت موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کر دی ہے۔ عمران خان کے وکیل حامد خان نے کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ نوٹس موصول نہیں ہوا جس کے باعث کیس کی تیاری نہیں کر سکا، موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد کیس مقرر کیا جائے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان سے کہا کہ آپ کو نوٹس بھیجا ہوا ہے، اپنے اے او آر سے رابطے میں رہا کریں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت کی جانب سے وکیل ریاض حنیف راہی عدالت میں پیش ہوئے۔ شیر افضل مروت کے وکیل نے بتایا کہ ان کی درخواست پر سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے اعتراضات عائد کیے تھے مگر رجسٹرار آفس کی جانب سے اعتراضات بارے ہمیں بتایا نہیں گیا، ہم اعتراضات پر جواب بھی تیار نہیں کرسکے۔ بعدازاں عدالت عظمیٰ نے اعتراضات فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت جنوری تک ملتوی کردی۔ آئینی بینچ نے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم سے متعلق کیس میں متفرق درخواست غیر موثر ہونے کی بنیاد پر نمٹا دی۔ دوران سماعت ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں 2018ء کے ضمنی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کا استعمال کیا گیا، پارلیمنٹ میں رپورٹ بھی جمع کرا دی گئی ہے، معاملے کو پارلیمنٹ نے دیکھنا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ حامد خان آپ سینٹ کی پارلیمانی کمیٹی میں اس معاملے کو اٹھائیں۔ جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے فون ٹیپنگ سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا فون ٹیپنگ سے متعلق کوئی قانون سازی ہوئی؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 2013 سے قانون موجود ہے جس کے مطابق آئی ایس آئی اور آئی بی نوٹیفائیڈ ہیں، قانون میں فون ٹیپنگ کا طریقہ کار ہے اور عدالتی نگرانی بھی قانون میں ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ قانون کے مطابق تو فون ٹیپنگ کے لیے صرف جج اجازت دے سکتا ہے، کیا کسی جج کو اس مقصد کے لیے نوٹیفائی کیا گیا ہے؟۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فون ٹیپنگ کا قانون مبہم ہے۔ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہمیں رپورٹس یا قانون میں دلچسپی نہیں بلکہ نتائج چاہئیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جج کی نامزدگی بارے مجھے علم نہیں۔جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ اس مقدمے کا اثر بہت سے زیر التواء مقدمات پر بھی ہوگا، یہ معاملہ چیف جسٹس کے چیمبر سے شروع ہو،ا چیف جسٹس کہاں جائے گا۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ قانون ہر کسی کو ہر فون ٹیپنگ کی اجازت نہیں دیتا۔ایڈووکیٹ آن ریکارڈ (اے او آر) نے کہا کہ اس مقدمے میں درخواست گزار میجر شبر سے رابطہ نہیں ہو رہا جبکہ میجر شبر کے وکیل بھی گزشتہ سال فوت ہو چکے ہیں۔دلائل کے بعد آئینی بینچ نے کیس پر ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
فون ٹیپنگ کی اجازت صرف جج دے سکتا، قانون میں دلچسپی نہیں، نتائج چاہئیں، آئینی بنچ
Dec 12, 2024