اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے+ خبر نگار+ خبر نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم تارڑ کا کہنا ہے کہ لشکر کشی چھوڑ کر پارلیمان میں آنے کو ترجیح دینے پر عمر ایوب کو سراہتا ہوں، اپوزیشن کا پارلیمنٹ کے فلور پر آکر بات شروع کرنا قابل تحسین اقدام ہے۔ عوام نے ہمیں مینڈیٹ بھی اس بات کا دیا کہ ایک دوسرے کی بات سنیں اور سمجھائیں۔ عمر ایوب کو ایوان میں آمد پر خوش آمدید کہتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں بات زیادہ بہتر طریقے سے پہنچتی ہے کیونکہ باہر تو دونوں طرف غلیلیں چل رہی ہوتی ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو اقتدار میں لانے میں سرفہرست لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید تھے۔ عمران خان کے ملٹری ٹرائل بارے قانون فیصلہ کرے گا۔ پارلیمنٹ ہائوس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا بانی پی ٹی آئی اور فیض حمید حصہ دار تھے۔ 4،5 سال ساتھ رہے۔ بانی پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے میں فیض حمید سرفہرست تھے۔ دونوں کی پارٹنرشپ 2018 ء سے پہلے سے چلی آرہی ہے، اس کے بعد بھی یہ شراکت چلتی رہی، 9مئی کو بھی یہ قائم تھی۔ اس شراکت سے کوئی انکاری ہے تو شواہد اور ثبوت ہوں گے۔ ان ثبوتوں سے ثابت ہوجائے گا یہ 5،6 سال کی شراکت داری ہے۔ کس طرح بانی کو اقتدار میں لایا گیا، کس طرح آر ٹی ایس 2018کا معاملہ ہوا۔ ان کو اقتدار میں لایا گیا، اس کے بعد کس طرح پی ٹی آئی کے مخالفین اور خاندانوں پر ظلم کیا گیا۔ وزیر دفاع نے کہا کہ ان ثبوتوں سے یہ بھی ثابت ہوگا کس طرح لوٹ مار کا بازار گرم کیا گیا۔ بانی پی ٹی آئی، ان کی اہلیہ اور دیگر نے بڑے بڑے ٹائیکون کے ساتھ مل کر کیا کیا۔ آخر یہ سب دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا شہادتوں سے سامنے آئے گا کہ کس طرح 2018 میں دھاندلی کی گئی۔ بانی پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں بہت سے سویلین کا ملٹری ٹرائل ہوا۔ عمران خان کے ملٹری ٹرائل بارے قانون فیصلہ کرے گا۔ وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے کہا ہے کہ ریاست کو بدنام کرنے کیلئے لاشوں کی سیاست کا جھوٹا بیانیہ بنایا گیا۔ وزیراعظم کی پی ٹی آئی رہنماؤں سے سپیکر کے گھر کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت شروع نہیں ہوئی، غیر رسمی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم پر سب کچھ منوا کر مکر گئے، ان کا اعتبار پھر کون کرے اور ان کی گارنٹی کون دے گا۔ انہوں نے کہا کہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر شرمندگی تو دکھائیں، اس کے بغیر اعتماد کیسے بحال ہو سکتا ہے۔ پارٹی 3 حصوں میں تقسیم ہے۔ مذاکرات بشریٰ گروپ، علیمہ گروپ یا کس سے کرنے ہیں۔ خود ان کے رہنماؤں نے کہا کہ سول نافرمانی کی کال دینا مناسب نہیں۔ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے پیش کش کی ہے کہ پی ٹی آئی ہمیں 2018ء کا مینڈیٹ واپس دے اور حکومت کرنے دے، پھر 2024 کا الیکشن لے لے۔ سینٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جو بیجا جائے وہ کاٹنا پڑتا ہے، پی ٹی آئی 2024 کے ساتھ 2018 کے الیکشن کی بھی بات کیا کرے، 8 فروری کے الیکشن کے کوئی ایشوز ہیں تو عدالتیں موجود ہیں۔ آپ 2018 کا مینڈیٹ ہمارا واپس کردیں، ہم اس کو لے کر اپنی ٹرم لے لیں اور پھر آپ 2024 کا الیکشن لے لیجئے گا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم نے آپ کا نامزد کردہ بندہ چیف الیکشن کمشنر لگایا اور جسے عمران خان چاہتے تھے اسے ہم نے چیئرمین نادرا لگایا۔ اگر 2024 کے الیکشن کا سینٹر پر اثر پڑا تو پھر 2018 کا بھی پڑا ہوگا۔ نا انہوں نے 18میں کیا ہوگا نا ہم نے 2024 میں کیا ہوگا، جو 2018 میں ہوا۔علاوہ ازیں وفاقی حکومت کے ذرائع نے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے لئے باضابطہ رابطہ کی تصدیق کر دی اور کہا کہ تحریک انصاف اپنے پیشگی مطالبات سے پیچھے ہٹ گئی ہے جس کے نتیجے میں مفاہمت کی فضاء پیدا کرنے کے لئے ان کی مذاکرات کی پیشکش قبول کی گئی ہے قبل ازیں بدھ کو سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا نے باضابطہ طور حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کی باضابطہ تصدیق کی گئی لیکن ان کے بیان کے فوری بعد چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ آج مذاکرات نہیں ہو رہے، حکومتی ذرائع نے بتایا کہ ہمیشہ سے سیاسی مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی بات کی گئی ہے کیونکہ سیاست میں آگے بڑھنے کا راستہ مذاکرات ہی ہیں نہ کہ انتشار۔ پی ٹی آئی نے 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کی درخواست کی ہے حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ جلد ہی ایک حکومتی کمیٹی بنائی جائے گی تاکہ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔ بعض ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ رابطے بحال اور مذاکرات ہو رہے ہیں۔
اسلام آباد (وقائع نگار+ نوائے وقت رپورٹ) چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ ہمیں مذاکرات کے ذریعے راستہ فراہم کرے، اب 9 مئی کی دھول بیٹھنی چاہئے۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے بیرسٹر گوہرنے کہا کہ ہم اس ایوان میں مذاکرات کرکے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا حساب چاہتے ہیں، ہم اس ایوان سے مذاکرات کے ذریعے راستہ چاہتے ہیں، ہم نے مذاکرات کیلئے کمیٹی بنائی ہے اسے کمزوری نہ سمجھا جائے، اگر ہمیں مذاکرات سے راستہ نہ دیا گیا تو پھر سے سڑکوں پر آئیں گے، ہمیں بار بار سڑکوں پر آنے پر مجبور نہ کیا جائے، آئیں پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بلائیں، حالیہ دنوں میں برازیل سمیت کتنے ہی ممالک میں لوگ ایوانوں میں داخل ہوگئے کیا وہاں گولی چلی؟، یہاں آئینی احتجاج ہوا جس پر گولی چلائی گئی، آپ کی پارلیمان کے سامنے گولی چلی، وزیر دفاع نے عجیب منطق دی کہ گولی علی امین گنڈاپور کے گارڈز نے چلائی، یہ عجیب بات ہے کہ حکومت یہ ماننے کو تیار نہیں کہ گولی بھی چلی۔ ہمارے لوگ جو احتجاج پر آئے تھے غیر مسلح تھے۔ ہم پشتون کارڈ استعمال نہیں کررہے، آپ وہ ویڈیوز سامنے لائیں جن میں پی ٹی آئی کے لوگوں نے کسی قسم کا اسلحہ استعمال کیا، بانی چیئرمین پی ٹی آئی کو مقبولیت کیلئے جلسے جلوس نکالنے کی ضرورت نہیں۔ علاوہ ازیں قومی اسمبلی اجلاس میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ افراط زر نیچے نہیں آ رہی ہے، مہنگائی میں کمی کا دعوی کرنے والے کس جہاں میں رہتے ہیں؟۔ چیلنج کرتا ہوں افراط زر کم نہیں بلکہ زیادہ ہوئی ہے۔ معیشت کی بہتری کے لیے حکومت کسی قسم کے عملی اقدامات نہیں کر رہی ہے۔ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں آ رہی جبکہ حکومت غیر ملکی دوروں کے باوجود سرمایہ کاری لانے میں ناکام ہے، قانون کی حکمرانی نہ ہونے تک معیشت بہتر نہیں ہو سکتی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو دھمکیاں ملتی ہیں، ڈی چوک پر پرامن مظاہرین پر گولیاں چلائی گئی ہیں اور بانی پی ٹی آئی کو غیر قانونی طور پر جیل میں رکھا گیا ہے۔ شیر افضل مروت کا کہنا تھا 26 نومبر کو ہم پر گولیاں کیوں چلائی گئیں۔ علی امین گنڈاپور آخری وقت تک بشریٰ بی بی کے ساتھ کھڑے رہے، مارا بھی ہمیں، زخمی بھی ہم ہوئے اور مقدمات بھی ہمارے خلاف ہو رہے ہیں۔ قومی اسمبلی اجلاس میں وزراء کی عدم موجودگی اور سوالات کے درست جوابات نہ دینے پر اپوزیشن تو اپوزیشن حکومتی اتحادی بھی حکومت پر برس پڑے۔ پی پی پی اور ایم کیو ایم نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ پی پی پی کے چند ارکان نے احتجاجاً ایوان سے واک آئوٹ بھی کردیا۔ ڈپٹی سپیکر سید غلام مصطفی شاہ نے وزراء کی عدم موجودگی کے خلاف وزیر اعظم کو شکایت کا خط لکھنے کا اعلان کردیا۔ قومی اسمبلی اجلاس ڈپٹی سپیکر سید غلام مصطفی شاہ کی صدارت میں ہوا تو اپوزیشن لیڈر عمر ایوب ہی نہیں حکومتی ارکان نے بھی وزراء کی عدم موجودگی کا معاملہ اٹھا دیا۔ اپوزیشن لیڈر نے وزراء کی عدم موجودگی کو حکومتی غیر سنجیدگی سے تعبیر کیا۔ پی پی پی ارکان سید نوید قمر، آغا رفیع اللہ، شازیہ مری، شرمیلا فاروقی نے کہا کہ اس ایوان کو مذاق بنادیا گیا ہے۔ دریں اثناء نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر‘ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور صاحبزادہ حامد رضا نے ایاز صادق سے ملاقات کی اور ان کی ہمشیرہ کے انتقال پر اظہار تعزیت کیا۔ وزیر قانون و پارلیمانی امور اعظم نذیر تارڑ بھی ملاقات میں موجود تھے۔ علاوہ ازیں سابق سپیکر، ایم این اے اسد قیصر سپیکر قومی اسمبلی سردارایاز صادق سے انکی ہمشیرہ کے انتقال پر اظہار تعزیت کیلئے بدھ کے روزان کی رہائشگاہ پر پہنچے اورسپیکر قومی اسمبلی سے ان کی ہمشیرہ کی وفات پر فاتحہ خوانی کی۔ سلمان اکرم راجہ بھی فاتحہ خوانی کے لئے سپیکر کی رہائشگاہ پرپہنچے۔ اسد قیصر نے کہا کہ ان کی وزیر اعظم سے ملاقات نہیں ہوئی ہے، یہ ڈس انفارمیشن ہے۔ ہم تعزیت کے لئے گئے تھے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اسد قیصر نے کہا کہ لیکن اگر سیاسی لوگ ملیں تو سیاسی گفتگو تو ہوجاتی ہے۔ ایوان بالا میں اپوزیشن لیڈر سینیٹر شبلی فراز نے حکومت کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ 9مئی اور 24فرروری کے واقعات کی جوڈیشیل انکوائری کی جائے۔ سینیٹر شبلی فراز نے 24نومبر کے احتجاج کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ہمارا سیاسی اختلاف ہے کوئی دشمنی نہیں ہے، ہمیں تمام معاملات سیاسی طریقے سے حل کرنے چاہئے۔ شبلی فراز نے کہاکہ 24نومبر کا دن پاکستان کی تاریخ میں سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ ہم 24تاریخ تک کیوں پہنچے اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کے ساتھ گذشتہ دو سالوں سے زیادتیاں کی گئیں، ہم سے ہمارا انتخابی نشان چھینا گیا مگر عوام نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ووٹ دئیے، ہمارے بانی پی ٹی آئی کو گرفتار کیا گیا اور صاف لگ رہا تھا کہ انتخابات شفاف نہیں ہوں گے، بانی پی ٹی آئی کے خلاف بے بنیاد کیسز بنائے گئے، ہم نے جمہوری اور قانونی حق کو استعمال کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیاں کیں اور زیادتیوں کے خلاف احتجاج کیا مگر ہمیں احتجاج کرنے کا حق بھی نہیں دیا گیا۔ الیکشن ٹریبونلز ایک مذاق بن چکے ہیں، خیبر پختونخوا کی سینٹ کی نشستیں ابھی تک خالی ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں بھی نہیں دی جارہی ہیں۔