سابق سربراہ انٹر سروسز انٹیلی جنس(آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی میں پیشرفت کے ساتھ ہی وفاقی دارالحکومت کا سیاسی درجہ حرارت یخ بستہ دسمبر میں بھی کافی بڑھ گیا ہے اور کہیں پریس کانفرنسز جاری ہیں تو کہیں بے وجہ وضاحتیں جاری کی جا رہی ہیں۔ معاشی صورتحال کو خوش کن اعدادوشمار کا لبادا اوڑھا کر عوام میں بہتر مستقبل کی امیدیں جگاتی حکومت بھی اس پیشرفت سے کسی حد تک خوش اور مطمئن دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ اپوزیشن جماعتوں بالخصوص جمعیت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے اسلام آباد کی طرف احتجاجی مارچ کرنے کی دھمکی کے نتیجے میں حکومت مذاکرات کے ذریعے انہیں راضی کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے لیکن مولانا فضل الرحمان ابھی احتجاج اور لانگ مارچ کے فیصلے پر نا صرف قائم ہیں بلکہ اپنے احتجاج کو کامیاب بنانے کے لئے انہوں نے مدارس بل کا معاملہ پاکستان بھر کے علماء کرام پر چھوڑ دیا ہے جس کے نتیجے میں اگر حکومت مولانا فضل الرحمان کے مطالبات کو تسلیم نہیں کرتی تو اس کے ہونے والے احتجاجی مظاہرے کو دیگر مسالک اور مکاتب فکر کی نا صرف حمایت حاصل ہو گی بلکہ پاکستان تحریک انصاف بھی اپنے احتجاج کو مولانا کے احتجاج میں "ضم" کر سکتی ہے۔ جس سے حکومت اور مقتدر حلقوں کے لئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
اگرچہ بعض حلقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور شدہ بل کو صدر مملکت کی جانب سے مسترد کر دینے کی کیا وجوہات ہیں جب کہ حکومت اور پیپلزپارٹی نے ایوان میں مشترکہ طور پر اس بل کی حمایت کی تھی۔ سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ حکومت میں شامل جماعتوں نے 26ویں آئینی ترمیم میں مولانا فضل الرحمان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے مدارس بل کی منظوری کا کڑوا گھونٹ بھرا تھا لیکن بعد میں 26ویں آئینی ترمیم سے "مطلوبہ" اہداف کے حصول کے بعد مولانا فضل الرحمان کو لال جھنڈی دکھا دی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے قانونی مشیر سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو خط لکھ کر مدارس بل پر صدر مملکت آصف زرداری کے اعتراضات مانگے ہیں۔ جے یو آئی (ف) کے قانونی مشیر نے کہا کہ ہمیں صدر مملکت کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات کی نقول فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اسپیکر کی جانب سے ان اعتراضات کو ایڈریس کرنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے بھی آگاہ کیا جائے۔
دوسری جانب اسلام آباد کے ڈی چوک میں 24 نومبر کو احتجاج کی کال ناکام ہونے کے بعد اب بانی پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے "سول نافرمانی" کی کال دے دی ہے جس کو عوام نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے، اگرچہ اس احتجاج کی کال پر خود پارٹی کے اندر بھی واضح تقسیم موجود ہے تاہم اوورسیز پاکستانیوں کو ترسیلات زر وطن بھجوانے سے روکنے کا معاملہ سنجیدہ رخ اختیار کر سکتا ہے۔
وفاقی دارالحکومت میں آجکل "ان ہائوس" تبدیلی کی بھی افواہیں گردش میں ہیں اور اقتدار کی غلام گردشوں تک رسائی رکھنے والے واقفان حال کا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کے کندھوں سے اقتدار کا ہما پرواز کرنے ہی والا ہے۔ حالیہ دنوں میں صدر زرداری اور بلاول بھٹو سے مقتدر حلقوں کے "پیامبر" کی ملاقاتیں بھی اس بات کی چغلی کھا رہی ہیں کہ اندر ہی اندر کچھ پک تو رہا ہے تاہم آنے والے دنوں میں حالات واضح ہوں گے کہ موجودہ پارلیمنٹ اپنے سربراہ کی تبدیلی کے عمل سے گزرتی ہے یا تمام حکومتی اتحادی پرانی تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے۔ حکومت نے سیاسی درجہ حرارت کو بھانپتے ہوئے سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس بھی طلب کر لئے ہیں۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر علی گوہر نے حکومت کے سامنے اپنے مطالبات پھر دہرائے جس کے بعد وزیر قانون اعظم نذید تارڈ اپوزیشن کے ایوان میں بات کرنے کو خوش آئند قرار دیا جس سے سیاسی درجہ حرارت میں کمی کا امکان ہے۔