پروفیسر حافظ طلحہ سعید
دسمبر کے مہینے کے ساتھ ہماری تلخ یادیں وابستہ ہیں ۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں پاکستان دولخت ہوگیا اور ہمارے ہزاروں فوجی جوان دیوی اور دیوتائوں کے پجاریوں کے ہاتھو ں گرفتار ہوگئے تھے ۔ بلاشبہ سانحہ مشرقی پاکستان بہت بڑا المیہ تھا۔ لیکن اس سے بھی بڑاالمیہ یہ ہے کہ ہم نہ صرف اس سانحہ کو بھول گئے ہیں بلکہ بحیثیت قوم ہم نے اس سانحہ سے آج تک کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ سانحہ مشرقی پاکستان میں ہمارے لیے عبرت کے اور یاد رکھنے کے بہت سے سامان تھے۔ ان میں سے یاد رکھنے والا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ یہ سانحہ ہماری اپنی غلطیوں، باہمی انتشار اور خلفشار کی وجہ سے پیش آیا۔ باہمی اختلاف اور انتشار نے ہمیں اندر سے کمزور کردیا تھا۔ یہاں تک کہ ہم اپنا دفاع کرنے اور دشمن کا مقابلہ کرنے کے بھی قابل نہ رہے۔ جہاں تک سانحہ مشرقی پاکستان میں بھارتی کردار کا تعلق ہے اس سے انکار ممکن نہیں ۔ لیکن یاد رکھنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر ہم اندر سے کمزور نہ ہوتے، ٹوٹ نہ گئے ہوتے تو بھارت کے لیے ہمیں شکست دینا ممکن نہ تھا ۔
پاکستان کو دولخت کرنے میں بھارت کا کردار ثانوی ہے، اصل غلطی ہمارے اس وقت کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی ہے جنھوں نے قوم کو تقسیم کیا، اقدار پر اقتدار کو اور ملکی مفاد پر ذاتی مفادات کو ترجیح دی۔ جہاں تک ہندو بنیا کا تعلق ہے یہ کبھی بھی مرد میدان نہیں رہا۔ یہ ہمیشہ سازشوں اور مکاریوں سے میدان جیتنے کے پروگرام بناتا ہے۔ یہ وہی بھارت ہے جو 1971ء سے صرف پانچ سال پہلے یعنی 1965ء میں ہمارے ہاتھوں بری طرح اور ذلت آمیز طریقے سے شکست کھا چکا تھا۔ بھارتی فوج کے جرنیل صبح کا ناشتہ لاہور میں کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ لیکن جیسے ہی بھارت حملہ آور ہوا کراچی سے چٹاگانگ تک پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن گئی اور اپنی بہادر افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی تھی، دشمن جو طاقت میں تعداد اور اسلحہ میں سے ہم کہیں زیادہ تھا اسے خاک چاٹنی پڑی تھی۔ تب دنیا کے بڑے بڑے عسکری تجزیہ نگار یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ بھارت کے لیے پاکستان کو میدان جنگ میں شکست دینا ممکن نہیں۔
پھر ہمارے دشمن نے طریقۂ واردات بدلا، ہمارے اندر اختلافات کے بیج بوئے گئے، صوبائیت اور لسانیت کے جھگڑے کھڑے کیے گئے۔ اندرا گاندھی نے اپنے گماشتوں اور ایجنٹوں کے ذریعے ان اختلافات کو مزید ہوا دی اور جلتی پر تیل ڈالا۔ نتیجے میں دو بھائیوں کے درمیان اختلافات کی خلیج حائل ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ پاکستان دولخت ہوگیا۔ آج دشمن ایک بار پھر یہی طریقۂ واردات آزما رہا ہے۔ ہمارے اندر انتشارو اختلاف کے بیج بوئے جارہے ہیں اور نفرت کے تانے بانے بنے جا رہے ہیں، بھائی کو بھائی کے ساتھ لڑانے کی سازشیں ہورہی ہیں۔ ملک کے خلاف اور قوم میں سیاسی، فکری، نظریاتی انتشار پیدا کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر ایسے ایسے نعرے لگ رہے ہیں، جھوٹ گھڑے جارہے اور ایسا مذموم پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ جس کا ہم کبھی تصور بھی نہ کرسکتے تھے۔ یہ نعرے اور دعوے زہر قاتل ہیں جو ہماری نبیادوں کو ہلا رہے، کھوکھلا کررہے اور ہمیں اندر سے کمزور کررہے ہیں ۔ اگر ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے بات کریں تو ہمارا دین ہمیں اتحاد واتفاق کی راہ پر چلنے اور انتشار وافتراق سے بچنے کا سبق دیتا ہے۔ دین اسلام میں فتنے کو قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم قرار دیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس صورتحال کا تدارک کیا جائے، سیلاب ِ بلا کے سامنے بند باندھا جائے، انتشار وافتراق کی بجائے قوم کو متحد و متفق کیا جائے ۔
پاکستان مرکزی مسلم لیگ سمجھتی ہے کہ اس وقت پاکستان کو جتنے بھی مسائل درپیش ہیں ان کا حل صرف اور صرف باہمی اتحادواتفاق اور تحمل و رواداری میں ہے۔ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور سیاست و ریاست کے درمیان کشیدگی کا نقصان ملک اور عوام کو ہورہا ہے جبکہ پاکستان کے دشمن اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مرکزی مسلم لیگ ایسے حالات میں مزید خاموش نہیں رہ سکتی، ملک کو مسائل اور اختلافات کی موجودہ دلدل سے نکالنے کا واحد راستہ قومی مفاہمت اور باہمی مشاورت میں ہے۔ باہمی مشاورت اور مفاہمت سے بڑے بڑے سنگین اور پیچیدہ مسائل حل ہوجاتے ہیں اور کامیابی قدم چومتی ہے ۔ قوموں کی تاریخ اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ماضی قریب میں ہندوستان کے مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کی صورت میں جو عظیم کامیابی حاصل کی وہ اتحاد واتفاق کی بدولت ہی حاصل کی تھی۔ اگر اس وقت مسلمان کلمہ طیبہ والے پرچم تلے متحد نہ ہوتے ان کے لیے قیام پاکستان کا معرکہ جیتنا ممکن نہ ہوتا۔
ملک میں جاری کشیدگی کو کم کو کرنے کے لیے مرکزی مسلم لیگ نے ملک گیر رابطہ مہم شروع کرنے فیصلہ کیا ہے، اس مقصد کی خاطر تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز سے رابطے کیے جائیں گے تاکہ قومی مشاورت اور مفاہمت کے ذریعے مسائل کو حل کیا جائے۔ پاکستان اس وقت ایک سنگین سیاسی بحران سے دوچار ہے، جہاں ریاست اور سیاست کے درمیان کشیدگی ملک کے استحکام کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ پاکستان ہمارا ملک ہی نہیں ہمارا گھر بھی ہے اور پاکستان میںبسنے والے ایک قوم ہیں۔ گھر کی حفاظت کرنا اور قوم کو متحد رکھنا ہم پر لازم ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں اور اہم اسٹیک ہولڈرز سے رابطہ کریں گے تاکہ قومی مشاورت اور مفاہمت کے ذریعے اس بحران کا حل تلاش کیا جا سکے۔ مرکزی مسلم لیگ سمجھتی ہے کہ سیاست کو ریاست کا دشمن نہیں بلکہ معاون ہونا چاہیے۔ اس وقت تمام سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کو مل کر ایسے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے جو عوام کے لیے فائدہ مند ہوں اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔
ہم تمام اسٹیک ہولڈرز سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور باہمی مشاورت سے اس بحران کا حل نکالیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ سیاستدان اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر عوامی مسائل پر توجہ مرکوز کریں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ملک لاکھوں قربانیوں کے بعد ہمیں حاصل ہوا ہے، اس کی منزل اسلامی فلاحی اور مضبوط پاکستان ہے۔ مرکزی مسلم لیگ اپنی مکمل صلاحیتوں کے ساتھ اس مقصد کے حصول کے لیے کام کرتی رہے گی۔ ہم اس یقین کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں کہ قومی مشاورت اور مفاہمت ہی پاکستان کو اس بحران سے نکال سکتی ہے۔ ہم تمام سیاسی مذہبی جماعتوں کے قائدین سے کہنا چاہتے ہیں کہ یہ جوش کا نہیں ہوش کا ہے ، تصادم نہیں مفاہمت کا ہے۔ خدا را ذاتی اغراض اور مفادات کی بجائے قوم کے لیے سوچیں۔ ملک قوم سے بنتے ہیں ۔ قوم منتشر ہوگی تو ملک خود بخود کمزور ہوگا۔ ملک تو 1971ء میں موجود تھا لیکن پاکستان کو معرض وجود میں لانے والی وہ قوم نہ رہی نتیجے میں ملک بھی نہ رہا۔ اللہ ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین !
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا ہے
قومی مشاورت اور مفاہمت، وقت کی اہم ضرورت
Dec 12, 2024