اے میرے لاہور! تقریباً پانچ برس مصر سے واپسی پر تمہیں غور سے دیکھا ہے تمہارے چہرے پر کتنی جھریاں خراشوں کی طرح نمودار ہونے لگی ہیں۔ میری طرح تمہارے بالوں میں بھی چاندی جھلکنے لگی ہے۔ تمہاے سینے پر تجاوزات مونگ ”دل رہے ہیں جگہ جگہ کھدائی کے زخم اور سڑکوں پر ٹریفک کا اژدھام تمہارے حقیقی حُسن کو ماند کرنے پر تلا ہوا ہے۔ لاہوریے، دن بھر ٹریفک میں پھنسے بدحال نظر آتے ہیں۔ سڑک پر چلتی پھرتی گاڑیاں اور کاریں ”رینگتی قبریں“ محسوس ہوتی ہیں۔ ٹریفک کے اشارے پلکیں جھپکنا بھول بیٹھے ہیں۔ پولیس کا اکیلا سپاہی ایک طرف کے ٹریفک پر ہی زیادہ دھیان دے سکتا ہے دوسری طرف ذرا سی سستی قطاروں کو مزید طویل بنا دیتی ہے۔ جگہ جگہ ناکے اور رکاوٹیں ٹریفک کو مزید سست رو کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ دھواں، گردوغبار اور شور سے زندہ دلان کے دل مردہ ہونے کو ہیں پھر بھی ذرا سی خوشی بھلے وہ بسنت، بارش اور بجلی آنے ہی کی کیوں نہ ہو اہل شہر کی آنکھوں میں چمک لے آتی ہے۔ میٹرو بس کا منصوبہ بھی ایک اہم خوشی ہے لاہوریوں کے لئے.... کہ ایک مصیبت کے بعد ایک نعمت سے بہرہ ور ہوئے ہیں۔ خدا کرے لاہور کا میٹرو بس منصوبہ لاہوریوں کے لئے آسانیاں لائے۔ اتنا عظیم منصوبہ بہت سی دشواریوں کے بعد تکمیل کو پہنچا ہے۔ لیکن آغاز میں کچھ نہ کچھ مسائل تو آڑے آ سکتے ہیں۔ ہمیں صبر اور برداشت سے ہر مسئلے سے نمٹنا ہے۔ ایک بات ضرور ہے کہ میٹرو بس منصوبہ سے ٹریفک کے دباﺅ میں کچھ کمی ضرور آئے گی خصوصاً اور گرد کی سڑکوں پر.... میاں شہباز شریف کی نیت ٹھیک ہے وہ عوام کےلئے کچھ نہ کچھ کر گزرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ لوگوں کو آسانیاں فراہم کرنے پر تلے ہوئے ہیں مگر کہیں کہیں بے بس بھی دکھائی دیتے ہیں۔ بعض جگہوں پر ان کے مشیر بھی انہیں درست بات نہیں بتاتے۔ سستی روٹی سکیم میں کچھ کوتاہیاں ہوئی ہیں۔ کتنا سرمایہ تندوروں میں جھونک دیا گیا۔ لیپ ٹاپ سکیم، دانش سکول، سولر، ہیلمٹ کی تقسیم بھی اچھے منصوبے ہیں مگر یہ محدود طبقے کےلئے ہیں۔ حکومت کسی خاص اور محدود طبقے کی بجائے اجتماعی مفادات کی ضامن ہوتی ہے۔ مثلاً سستی روٹی کی بجائے آٹا سستا اور عام دستیاب ہو جائے تو لوگ روٹی گھر بنا سکتے ہیں۔ دانش سکولوں کا سلسلہ بھی درست مگر پنجاب بھر کے پرائمری سکولوں کی حالتِ زار بہتر کر دی جائے، وہاں اساتذہ عمارات اور فرنیچر پر رقم خرچ کی جائے تو زیادہ آبادی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ اسی طرح سولر انرجی کی سہولت چند طلبا کو دینے کی بجائے بجلی بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے تو عام آدمی اور ہر عام طالب بھی مستفید ہو سکتا ہے۔ بجلی گیس پانی جیسی بنیادی ضروریات پر ہر شخص کا حق ہے اور حکومتوں کو یہ بنیادی ضروریات عام کرنے پر خصوصی توجہ دینی چاہئے۔ میٹرو بس شاندار منصوبہ ہے لیکن پنجاب حکومت کے ناقد اسے شاہ خرچی قرار دیتے ہیں بھلے اس سے لاہوریوں کی ٹریفک مشکلات میں کمی آئے گی لیکن لاہور اور دوسرے شہروں میں اسی رقم سے بہت سی سڑکیں کشادہ اور تعمیر ہو سکتی تھیں۔ لاہور پنجاب کا دل ہے، دل بڑا ہونا، اچھی بات ہے مگر اب یہ دل چاروں طرف پھیل چکا ہے اس کا دریا سوکھ چکا اور اس میں ریت اڑنے لگی ہے نہر بھی نہر نہیں لگتی۔ رائے ونڈ کے اطراف میں سکیورٹی کے اخراجات کی باتیں ہوا کرتی تھیں اب بحریہ ٹاﺅن میں بلاول ہاﺅس بھی آباد ہوا چاہتا ہے۔ اس کےلئے مزید سکیورٹی فورسز کی ضرورت ہو گی۔ عوام کی مشکلات، میں اضافہ ہو گا۔ صدر زرداری لاہور میں براجمان ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اب لاہور کو بھی بنکر کا درجہ دینا پڑے گا۔ خدا خیر کرے.... کراچی کو پہلے ہی کسی کی نظر کھا گئی ہے.... بہت سے لوگ کراچی سے لاہور منتقل ہو رہے ہیں۔ مکانوں کے کرایوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آبادی بڑھ جائے تو نئے شہر بسانے کا حکم ہے مگر؟ ہمارا لاہور بہت پھیل گیا ہے۔ لوگ تنہا ئی کے لئے شہر سے باہر نکل رہے ہیں۔ نہر کے کنارے کنارے نئی کالونیاں اور ہاﺅسنگ سوسائٹیاں بن چکی ہیں۔ دھیرے دھیرے یہ فضا بھی مکدر ہو جائے گی۔ لاہور کی فضا پہلے جیسی نہیں رہی۔ مال روڈ وہ مال روڈ نہیں۔ ٹی ہاﺅس، ناصر باغ اور ریستورانوں کا شہر کہیں کھو گیا ہے۔ ناصر کاظمی منیر نیازی، انتظار حسین اور اے حمید کا لاہور گم ہوتا جا رہا ہے.... وی آئی پی کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ لوگوں کے پاس مسکرانے کا وقت بھی نہیں ہے۔ امن دوستی محبت خلوص ایثار عنقا ہو رہے ہیں۔ اے میرے لاہور! وہ محفلیں، وہ رونقیں کہاں چلی گئی ہیں.... یہ میرا لاہور تو نہیں.... زندہ دلان لاہور چُپ کیوں ہیں.... کوئی تو بولے....یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمیں کاوہ بوجھ کو اٹھانے والے کیا ہوئے
میٹرو بس شاندار منصوبہ .... مگر
Feb 12, 2013