کارگل اور اعلان واشنگٹن کے نقصانات

کارگل کے حوالے سے 23 جون 1999ءکو جنرل زینی کی پاکستان آمد ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی۔ ان کی آمد سے پہلے ہم کارگل آپریشن کے متعلق یہ کہہ رہے تھے کہ یہ سب کچھ تو مجاہدین کر رہے ہیں حکومت اور افواج پاکستان کا اس آپریشن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر جب جنرل زینی نے پاکستان کی حکومت اور اعلیٰ فوجی قیادت کے ساتھ دھمکی آمیز لہجے میں بات کی اور کچھ ایسی دستاویزی شہادتیں بھی پیش کیں جس سے ثابت ہوتا تھا کہ پاکستان کی افواج اور اسکا ریگولر عملہ کارگل آپریشن میں شامل ہے جب پاکستان کے اعلیٰ فوجی اور سول حکام نے اپنے موقف پر اصرار کیا تو جواباً جنرل زینی نے کہا کہ اگر آپ کے فوجی کارگل کی پہاڑیوں سے واپس نہیں اتریں گے۔ تو پھر آپ کی جوہری تنصیبات کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
قارئین کارگل کے بحران کے عروج پر ایکدم امریکہ اور مغرب کا رویہ ہمارے بارے میں اتنا سخت اور معاندانہ کیوں ہو گیا اور ہندوستان کے ساتھ اس کا رویہ اتنا ہمدردانہ کیوں ہو گیا اسکی وجہ صاف عیاں ہے امریکہ کی ہماری لاکھ خدمت گزاری کرنے کے باوجود اسکی پہلی محبت ہمیشہ ہندوستان ہی رہا ہے۔ امریکہ کو ہندوستان کے ساتھ محبت کرنے کا موقع 1962ءمیں ملا اور انہوں نے ہندوستان کو دھڑا دھڑ اسلحہ دیا۔ صدر ایوب کے احتجاج کو نظرانداز کیا اور پاکستان سے اپنا رویہ تبدیل کر لیا‘ انڈیا نے جب ایٹمی دھماکے کئے تو بظاہر مغرب نے معمولی سا احتجاج کیا لیکن جب ہم نے ان کی مرضی کے خلاف دھماکے کر ڈالے تو ان دھماکوں کے بعد واجپائی حکومت کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ اور امریکی خارجہ پالیسی کے اصل دماغ سٹروپ ٹالپوٹ اور کارل انڈر فرتھ کے درمیان بہت گہرے مذاکرات ہوئے۔ اس پر نائب امریکی وزیر خارجہ کارل انڈر فرتھ نے سینٹ کی کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور بھارت فطری حلیف ہیں ہم چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ جوہری دھماکوں سے ایک دن پہلے کے تعلقات کی طرف واپس لوٹ جائیں اور اپنے دوطرفہ تعلقات کو ایک نئی وسعت‘ ایک نئی رفعت اور ایک نئی گہرائی عطا کریں گے۔ اسی وجہ سے امریکہ نے جسونت سنگھ کے ساتھ ڈائیلاگ کے نتیجے میں کارگل کے مسئلے پر انڈیا کو فوقیت دینے کا فیصلہ کر لیا۔ کارگل کے بحران کے وقت انڈیا اور امریکہ کے درمیان نئی نئی دوستی‘ نیا ہنی مون اور نئی نئی محبت بڑی عروج پر تھی اور آج بھی امریکہ اور مغرب ہندوستان کی جمہوریت آئین کی بالادستی‘ آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا اور انکی مسلح افواج کا سیاسی امور میں مداخلت نہ کرنے کو آئیڈیل ریاست کے طور پر پیش کرتا ہے۔ لہٰذا کارگل کے آپریشن کے وقت یکدم جو امریکی رویہ پاکستان کے ساتھ تبدیل ہوا اور ہمیں کہا گیا کہ آپ اپنی فوجیں وہاں سے نکالیں‘ آپ نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی ہے اور کلنٹن نے جتنے فون نواز شریف کو کئے اس میں بار بار ایک ہی بات دہرائی کہ آپ وہاں سے اپنی فوجیں واپس بلائیں اس سے پاکستانی عوام‘ پاکستانی فوج اور پاکستانی حکومت ششدر رہ گئی کہ گذشتہ کئی عشروں سے پاکستان کی ریاست اس خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کی خاطر مغربی محاذ پر جنگ میں الجھی ہوئی ہے اور سویت یونین کے شکست و ریخت میں پاکستان کا ایک تاریخی کردار رہا ہے مگر آج امریکہ اور ہندوستان کارگل کے ایشو پر پاکستان کے خلاف یکساں موقف رکھتے ہیں لہٰذا یہ سمجھنا کہ صدر کلنٹن نواز شریف کے ذاتی دوست ہیں اور وہ کارگل کے مسئلے کے حل کے بعد ہمیں کشمیر ہندوستان کے قبضے سے واپس دلا دیں گے۔ یہ لوگوں کو بیوقوف بنانے والی باتیں تھیں۔ نواز شریف صاحب 27 جون کو چین کے دوہ پر تشریف لے گئے مگر 28 اور 29 جون کو ہمیں چین کی طرف سے بھی کوئی 1965ءوالا Go Gead کا سگنل نہ ملا بلکہ ہمیں ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ ادھر ہندوستان کو جب یہ اندازہ ہوا کہ چین بھی پاکستان کی پشت پناہی نہیں کر رہا ہے اور امریکہ کا پاکستان پر شدید دبا¶ ہے تو وہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے نیاز اے نائیک اور انڈیا کے نمائندے مسٹر مشرا کے ذریعے ہونے والے چار نکاتی معاہدے سے پیچھے ہٹ گیا اس صورتحال میں میاں نواز شریف نے بڑی پریشانی کے عالم میں بعض خلیجی ممالک کے بااثر دوستوں کے ذریعے صدر کلنٹن سے رابطہ کیا اور انہیں ذاتی طور پر ملنے کی درخواست کی صدر کلنٹن نے جواب دیا کہ آپ ضرور آئیں میں چار جولائی کو قومی تعطیل باوجود بھی آپ سے ملاقات کروں گا لیکن آپکو آنے سے پہلے یہ یقین دہانی کرانی ہوگی کہ آپ اپنی افواج کو کارگل کی پہاڑیوں سے واپس بلانے پر آمادگی ظاہر کریں گے چنانچہ میاں نواز شریف اور صدر کلنٹن کے درمیان تین گھنٹے کی ملاقات ہوئی اور 4 جولائی 1999ءکو اعلان واشنگٹن منظور ہو گیا۔ اعلان واشنگٹن سے پاکستان کو حسب ذیل یہ نقصانات ہوئے۔
 (1) کارگل آپریشن اور اس میں ہماری فوجی کامیابیوں کی وجہ سے پاکستانی قوم کا حوصلہ جس طرح بلند ہوا جس طرح تنازع کشمیر پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہونے کی توقعات بلند ہوئیں وہ توقعات یکدم دھڑام سے نیچے گر گئیں اور ایک ایسی انٹی کلائیمکس کی صورتحال پیدا ہو گی کہ عام پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ہم بھارت سے جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے تو پھر کارگل کا آپریشن شروع ہی کیوں کیا گیا تھا۔
(2) اعلان واشنگٹن کے وقت بھارتی وزیراعظم موجود اور فریق نہ تھے اور اسکی وجہ سے صرف پاکستان پر سخت پابندیاں عائد کیں گئیں۔
(3) اعلان واشنگٹن اس وجہ سے ہمارے لئے اہانت آمیز تھا کہ اس میں صرف پاکستان سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ کارگل سے اپنی افواج واپس بلائے مگر بھارت نے لائن آف کنٹرول کی جو تین خلاف ورزیاں 1984, 1972اور 1988ءمیں کئیں تھیں ان کے خاتمے کی طرف کوئی اشارہ تک بھی اس اعلان میں نہ تھا۔
(4) اس اعلان میں متنازعہ کنٹرول لائن کو احترام اور تقدس مل گیا اور شملہ معاہدے میں لائن آف کنٹرول کو چیلنج کرنے کا جو استحقاق پاکستان کو حاصل ہوا تھا اس معاہدے کے نتیجے میں ختم ہو گیا۔ ستم بالائے ستم اس اعلان میں لاہور ڈیکلریشن کا ذکر تو آیا لیکن نہ تو سلامتی کونسل کی قراردادوں کا ذکر ہوا اور نہ ہی کشمیریوں کی رائے معلوم کرنے کی ضرورت کا اعتراف ہوا۔
(5) اعلان واشنگٹن کے بعد ہمارے لئے کشمیر کے تنازع کو کسی بھی بین الاقوامی فورم پر اٹھانا مشکل ہو گیا۔
(6) اس اعلان سے کشمیر کے حوالے سے بھارت کے موقف کو پہلی دفعہ اخلاقی برتری ملی۔ وہ غاصب اور جارح ہونے کے باوجود دنیا کی نظروں میں ایک مظلوم فریق کی حیثیت اختیار کر گیا۔
(7) اعلان واشنگٹن کے بعد مجاہدین کی تحریک مزاحمت کو دنیا نے دہشت گردی کی تحریک قرار دے دی اور آج دنیا ہر طرفہ تماشا دیکھ رہی ہے کہ ایک غاصب اور جارح بھارت اپنا حق خودارادی مانگنے والوں کو دہشت گرد مذہبی شدت پسند اور مہم جُو جنونی منوانے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ کارگل آپریشن اور اعلان واشنگٹن کا ایسا المناک نتیجہ ہے جس کے مضمرات انتہائی دوررس ہیں اور اس محاذ پر ہماری ناقص کارکردگی ایک بہت بڑا المیہ ہے۔

ای پیپر دی نیشن