گجرات: پیپلز پارٹی اور (ق) لیگ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر مذاکرات تعطل کا شکار! چودھری احمد مختار اور پرویز الٰہی کی سوئی این اے 105 پر ہی اٹکی ہوئی ہے۔ احمد مختار این اے 105 کو جپھا ڈالکر بیٹھے ہیں جبکہ نکّے چودھری صاحب نے بھی لنگوٹ کَس رکھا ہے‘ حلقہ پی پی 118 منڈی بہا¶ الدین کا انتخاب 2008 میں چودھری پرویز الٰہی نے جیتا۔ ضمنی میں پی پی کے میجر (ر) ذوالفقار گوندل نے جھرلو پھیرا تھا۔ تب انکے برادر اکبر نذر گوندل وفاقی وزیر زراعت تھے‘ اب (ق) لیگ کے نوجوان ساجد بھٹی وہاں سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ جبکہ پیپلز پارٹی والوں کے ذہن سے جھرلو سیاست نکل نہیں پا رہی اسی بنا پر کافی تُو تُو مَیں مَیں ہو رہی ہے۔ پتہ نہیں یاری توڑ نبھتی ہے یا کچے دھاگے کی طرح ٹٹ جاتی ہے۔ عنقریب اخبارات کی ہیڈلائن میں لکھا نظر آئے گا....
لائی بے قدراں نال یاری
تے ٹٹ گئی تڑک کرکے
چودھری احمد مختار اور چودھری برادران کی تو آپس میں ”سوکنوں“ جیسی لڑائی ہے۔ زرداری صاحب لاکھ جتن کر لیں لیکن انہیں اکٹھے نہیں بٹھا سکتے۔ عام الیکشن میں این اے 105 سے جو بھی آ¶ٹ ہوا۔ بس پھر وہ راندہ درگاہ ہی رہے گا۔ اسی بنا پر کوئی بھی آبائی سیٹ چھوڑنے پر تیار نہیں۔ پس پی پی اور ق لیگ کی منگنی انتخاب سے پہلے ٹوٹے ہی ٹوٹے۔
٭....٭....٭....٭
پھالیہ: موٹر سائیکل نہ لے کر دینے پر بیٹے نے ماں 2 بہنوں اور 2 بھائیوں کو ذبح کر دیا گیا۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چر اغ سے
خون کس قدر سفید ہو چکے ہیں‘ بیٹے نے صرف موٹر سائیکل نہ ملنے پر اپنی ممتا کو ذبح کر دیا ماں کا تو صرف یہی جرم ہوا کہ اس نے اس بدبخت کو جنم دیا تھا۔ پھر سردیوں کی راتوں میں اسے گرم بستر پر سلاتی اور خود گیلے بستر پر سوتی تھی۔ 2 بہنوں اور بھائیوں کا کیا قصور تھا؟ غریب ہونا ہی جرم بن چکا ہے‘ طبقاتی تقسیم امیر اور غریب کے درمیان کھینچی ہوئی لکیر کے باعث آج کی نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہو چکی ہے۔ 18 سالہ قاتل کا دل کلہاڑی کے وار کرتے ذرا بھی موم نہ ہوا۔ اسے وہ لوری بھی یاد نہ آئی جو ماں بچپن میں اٹھا کر اسے دیتی رہی ہو گی۔ خبر سن کر ہر کسی کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے‘ ایک گھر اجڑ گیا۔ انسانیت کٹ گئی‘ بیٹے کے ہاتھوں ماں بہنیں اور بھائی ذبح ہوئے چشم فلک نے یہ دن بھی دکھانا تھا۔
اس گھر کے در و دیوار بھی نوحہ کناں ہونگے‘ ایک ہنستا مسکراتا گھر ویران ہو گیا‘ پورا لسوڑی گا¶ں ہی اداس ہو گا‘ فضا سوگوار جبکہ پرندے بھی بدبخت قاتل کے اس فعل پر ماتم کر رہے ہونگے اور زبان حال شکوہ کرتے ہونگے‘ یا اللہ ایسے اجڈ گنوار‘ بے ڈھب‘ انتہا پسند‘ خونخوار اور آدم خور کو انسان بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ یا اللہ ہماری آپ سے التجا ہے کہ ایسی اولاد کسی دشمن کے گھر بھی مت پیدا کرنا۔
50 فیصد حالات انتخابات کی طرف جا رہے ہیں۔ لیکن التوا کی سازشیں ہو رہی ہیں: پیر پگاڑا
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی
جناب انتخابات کیلئے تو سب تیار ہیں۔ لیکن وہ گہما گہمی کارنر میٹنگز‘ اشتہارات کی چھپوائی‘ جلسوں کے شیڈول کہیں نظر نہیں آتے۔ انہیں نظر تو نہیں لگ گئی‘ ایک وفاقی وزیر نذر گوندل ہیں انہوں نے کبھی اپنے ووٹروں کا فون تک نہیں سنا۔ ان کا جملہ ہے میں خود نذر ہوں اسی لئے مجھے نظر نہیں لگتی۔ لہٰذا کوئی ووٹ دے یا نہ دے میں تو جیتو ںگا‘ شاید پھر نذر گوندل کے فرشتے وہاں ووٹ ڈالیں گے۔آج کل ہر سیاستدان ”بھانڈے قلعی کرا لو“ ”منجی پیڑھی ٹھکوالو“ کی میڈیا کے سامنے صدا لگاتے ہوئے پروپیگنڈہ کررہا ہے کہ الیکشن ملتوی کرانے کی سازش ہو رہی ہے۔ جناب سازش کون کر رہا ہے؟ آپ کو بُو کہاں سے آرہی ہے؟ سیاستدانوں کی مال بنا¶ مہم کا کون مخالف ہے؟ اس شاہ دولا کے چوہے کا نام تو بتائیں۔ عوام تو بھوک کی چکی میں پہلے ہی پس رہے ہیں۔ لیکن وہ شیطان کی خالہ سیاستدانوں کے حلق کیوں خشک کر رہی ہے۔ چند دنوں کچھ بچے جمورے ”گم شدہ قومی اثاثے“ کا پوسٹر اٹھا کر میدان میں کود پڑھیں گے۔ 2008ءمیں اس حکومت کو جو اثاثے ملے تھے وہ چوری ہو گئے یا گم شدہ لوگوں کیطرح کہیں تہہ خانوں میں چھپا دئیے گئے ہیں۔ آجکل تو سیاستدانوں کی عقل بھی گم ہو چکی ہے۔ وہ آنکھیں بند کرکے لکیر کے فقیر بن چکے ہیں۔ کبھی الیکشن ملتوی ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ تو کبھی نگران سیٹ اپ کی کہانیاں سنانے بیٹھ جاتے ہیں۔
٭....٭....٭....٭
امریکی ڈالر نے سنچری مکمل کر لی‘
پاکستانی روپیہ کتنا دوڑتا پانچ سال وہ ڈالر سے خوب لڑا ہے‘ لیکن پھر مایوس ہو کر بیٹھ گیا اور ڈالر دھمالیں ڈالتا ہوا 100 کو چھو گیا۔ کھربوں کے حساب سے نوٹ چھاپ کر حکومت نے ڈالر سے بڑھنے کی کوشش کی لیکن ڈالر پھر نمبر لے گیا۔ اب پٹرول مہنگا‘ دالیں سبزیاں اور آٹے کی قیمتیں بھی دوڑنا شروع ہو جائینگی۔ سابقہ حکومت کے 2008ءمیں 61 روپے اور کچھ پیسوں کا ڈالر تھا۔ اب 100 کو چھو چکا ہے۔ تب پٹرول 56 روپے اب 103 روپے تب ڈیزل 39 روپے اب 116 روپے تب سی این جی 30 روپے اب 65 روپے تب آٹا 16 روپے کلو اب 40 روپے چینی 25 روپے کلو اب 60 روپے کوکنگ آئل 70 روپے اب 190 غریب تو غریب اب تو امیر بھی کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں۔ سیاستدانوں نے قوم کا خون چوس چھوڑا ہے لیکن قوم بقول شیخ رشید قوم”ستو“ پی کر سو رہی ہے۔ ہمارے اندرونی اور بیرونی قرضے 61 فیصد سے بھی تجاوز کر رہے ہیں۔ ہر بچہ 85 ہزار روپے کا مقروض ہو چکا ہے جبکہ ہمارے محترم صدر نے 120کنال کا نیا محل تحفے میں قبول کیا ہے۔ سیاستدان اپنے پا¶ں پر خود ہی کلہاڑی مار رہے ہیں۔ انہیں ہوش کے ناخن لینے چاہیں‘ مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنیکی کوشش کرنی چاہئے تاکہ عوام سکون کا سانس لیں۔