لاہور (نیوز رپورٹر+وقائع نگار خصوصی+ نوائے وقت نیوز) تشدد کے باوجود ےنگ ڈاکٹرز کی بھوک ہڑتال آٹھویں روز میں داخل ہوگئی جبکہ ہڑتال ختم کرنے کے اعلان کے باوجود ان ڈورز میں ڈاکٹروں کی حاضری کم رہی دوسری طرف مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں کا بھوک ہڑتالی کیمپ میں آمد ورفت کا سلسلہ جاری رہا۔ جبکہ محکمہ صحت نے ایک سال سے زائد طویل چھٹیوں پر گئے مزید 25 ڈاکٹروں کو برطرف کر دیا ہے۔ میٹرو بس کے افتتاح میں رکاوٹ بننے اور احتجاج کرنے کے اعلان کے بعد پولیس نے 200کے قریب ڈاکٹروں کو نا صرف گرفتار کیا بلکہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا جبکہ ڈاکٹروں کی7گھنٹے بعد رہائی ہونے پر ےنگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے ان ڈورز اور ایمرجنسی کی ہڑتال واپس لے لی تھی اور دوبارہ بھوک ہڑتال کیمپ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ےنگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پنجاب گورنمنٹ کے تشدد کے بعد ہسپتالوں کے آﺅٹ ڈورز میں ڈاکٹروں کی حاضری خاصی کم رہی ہے اور وہ خوف زدہ ہیں مگر جب تک ہمارے مطالبات پورے نہ ہوئے ہم بھوک ہڑتال ختم نہیں کریں گے۔ جبکہ بعض خواتین ڈاکٹر بھی بھوک ہڑتالی کیمپ میں شامل ہو گئیں۔ پولیس لاٹھی چارج کے خلاف گذشتہ روز صوبائی دارالحکومت کے تمام سرکاری ہسپتالوں کے ان ڈور اور آﺅٹ ڈور وارڈوں میں کام بند کر دیا گیا۔ علاوہ ازیں برطرف کئے گئے ڈاکٹروں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ اب تک برطرف ڈاکٹروں کی تعداد 120 ہو گئی ہے۔ ڈاکٹروں کی ہڑتال کے باعث مریضوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ بعض ہسپتالوں میں ڈاکٹر مریضوں کو چھٹی لے کر یا علاج چھوڑ کر گھر واپس جانے کے مشورے بھی دیتے رہے۔ علاوہ ازیں ینگ ڈاکٹروں کو 8 گھنٹے غیر قانونی حراست میں رکھنے اورپولیس کی جانب سے تشدد کرنے کے اقدام کو لاہورہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ درخواست گذار ڈاکٹر سلمان کاظمی کی جانب سے لاہورہائیکورٹ میں دائر کی جانیوالی رٹ پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیاکہ پولیس نے پرامن احتجاج کرنیوالے ینگ ڈاکٹروں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جس سے متعدد ڈاکٹر زخمی ہو گئے جس کے بعد پولیس نے ان ڈاکٹروں کو حراست میں لیکر تھانہ شمالی چھاﺅنی منتقل کر دیا اور آٹھ گھنٹے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔
ینگ ڈاکٹر ہڑتال