پاک طالبان مذاکرات کی کامیابی کا راز

Feb 12, 2014

محمد یوسف عرفان

ہمارے قومی شاعر علامہ اقبالؒ کا فرمان ہے کہ کابل کلید ایشیا ہے یعنی کابل کی حکمرانی نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ سارے ایشیا کی حکمرانی کے مترادف ہے۔ حالات و واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ مستقبل کی سپر پاور (عالمی طاقت) کا مرکز کابل اور اس سے ملحقہ قبائلی پہاڑی علاقے ہیں۔ اسی لئے عالمی اتحادی ممالک مذکورہ خطے میں اپنی حکمرانی اور اثر و رسوخ کیلئے دامے، درمے، سخنے سرگرم عمل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کابلی و قبائلی علاقے مستقبل کی عالمی قوت، قیادت اور حکومت کا مسکن ہیں۔ پاک افغان خطے کی تاریخ اور مستقبل مشترکہ ہے، اسی لئے حملہ آور امریکی و اتحادی ممالک نے مذکورہ خطے کو افپاک AFPAK کا نام دیا ہے۔ مغرب یعنی امریکہ و برطانیہ وغیرہ کی موجودہ حکمت عملی تحریک و قیام پاکستان کے وقت بھی زیر غور رہی ہے۔ برطانوی، بھارتی، امریکی و اتحادی قیادت کی منصوبہ بندی یک نکاتی ہے کہ پاکستان کی ریاستی و فوجی وسائل قرآن و سنت کے نفاذ کے حامی کچلنے پر صرف ہوں تاکہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور اس وقت پاکستان دہشت گردی کی جنگ کا دانشمندانہ اور وطن پرستانہ تجزیہ کرنے کے بجائے بے دام امریکی و بھارتی اور اتحادی ممالک کے اشاروں پر ناچ رہا ہے۔ اگر دہشت گردی کی جنگ کا بے لاگ تجزیہ کیا جائے تو پاکستان بشمول فوج پاک افغان سرحد پر مصروف ہو کر بلواسطہ بھارت کی سلامتی کیلئے سرگرم عمل ہے۔ بھارت نے اپنے دانت مزید تیز کرنے کیلئے گجراتی مسلمانوں کے سرکاری قاتل نریندرا مودی کو وزیراعظم بنانے کی سعی کر رکھی ہے۔ مزید بھارت کی کروڑوں اچھوت اقوام کیلئے نرم پالیسی اختیار کر کے ہندوؤں کے دست و بازو بنا دیا ہے جو بالآخر ہندو ذہنیت کو افرادی قوت فراہم کرے گا۔
دہشت گردی کی جنگ میں امریکی کردار دباؤ، دھمکی اور تخریب کاری ہے۔ اگر پاکستان مذکورہ جنگ سے نکلنا چاہے تو امریکی سکیورٹی فورسز پر حملے کرتا اور کراتا ہے جس سے حکومت مزید دباو میں آ جاتی ہے۔ امریکی حملوں کی تفصیل نیک محمد سے حکیم اللہ محسود کی شہادتیں ہیں اور اسی طرح سانحہ لال مسجد، بگٹی، سوات، جنوبی وزیرستان آپریشنز، باجوڑ، کامرہ، سلالہ، مہران، نیول بیس، جی ایچ کیو وغیرہ اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ امریکہ و اتحادی ممالک کا ہدف پاکستان میں بھارت، امریکہ و یورپ کی طرح سرمایہ دارانہ معیشت کا قیام ہے۔ نیز کسی نہ کسی طرح بھارت کو علاقے کی سپر پاور بنانا ہے۔ اس وقت بھارت افغانستان میں موجود ہے اور پاکستان عالمی و اتحادی دباؤ تلے خطے میں بھارت مخالف مزاحمتی قوتوں کے خلاف بھارت کا ہراول دستہ بن کر رہ گیا ہے۔ اگر پاکستان اپنے مزاحمتی قبائلی و شہری علاقوں میں فوجی اور ریاستی کارروائی کرتا ہے تو اپنے وسائل کو محدود اور کمزور کر دے گا جس کا حتمی فائدہ بھارت کو پہنچے گا۔ پاکستان کو چاہئے کہ دوست اور دشمن کی شناخت کر کے مذکورہ مسائل سے تحمل، بردباری اور دانشمندی سے نکلے۔ موجودہ حکومت دہشت گردی اور دیگر مسائل کے حل کیلئے نیک نیت ہے۔ طالبان سے مذاکرات کیلئے نئی ٹیم کی تشکیل خوش آئند ہے، ٹیم میں میجر عامر (ر) کا شامل ہونا انتہائی مؤثر ہے۔ مذاکرات کی کامیابی کیلئے چند درج ذیل امور کو زیر نظر رکھا جائے۔
1۔ خطے کی مزاحمتی جہادی قوتوں کو طالبان کا لفظ حملہ امریکہ بھارتی و اتحادی ممالک کا عطا کردہ ہے۔ بہاولپور فضائی سازش 17 اگست 1988ء سے مزاحمتی قوتوں کا مجموعی نام مجاہدین تھا اور یہ سب پاکستان کے غیر مشروط حلیف تھے۔ اب امریکہ و بھارت نواز پاک حکومتوں نے معاملہ الٹ کر دیا ہے۔ ان مزاحمتی قوتوں کے کھونے کیلئے جان کے سوا کچھ نہیں اور یہ جان دینے میں دریغ بھی نہیں کرتے۔
2۔ طالبان نیٹو یعنی (امریکی و بھارتی اتحادی افواج) اور پاک فوج کے درمیان سینڈوچ بنے ہوئے ہیں۔ اگر یہ نیٹو فورسز کیخلاف کارروائی کرتے ہیں تو پاکستان دباؤ کے تحت فوجی آپریشنز کرتا ہے نیز کابلی و قبائلی مزاحمتی طالبان (مجاہدین) آپس میں رشتے دار ہیں۔ نیٹو ممالک انکی پاک دشمنی کی سرپرستی کرتے ہیں کیونکہ جب یہ پاک فوجی کارروائی افغان سرحد کا رخ کرتے ہیں تو نیٹو افواج انہیں مارتی ہے یا پاک فوج کیخلاف استعمال کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ جب پاکستان اور مزاحمتی طالبان مذکورہ سینڈوچ پوزیشن سے نکلنا چاہتے ہیں تو امریک ہ براہ راست ڈرون حملوں سے مدد لیتا ہے۔ مذاکرات کی کامیابی کیلئے رازداری بھی ضروری ہے۔
3۔ حکومت کا اپنی قبائلی و شہری آبادی کیخلاف ریاستی جبر (تحفظ پاکستان آرڈیننس وغیرہ) حالات مزید خراب کریگا لہٰذا رازداری اور غیر اعلانیہ عام معافی کا بندوبست کیا جائے۔ معاشرے کو مضبوط اور متحد کرنے کیلئے مساجد و مدارس کو مرکز بنائیں اور مذکورہ شہریوں، ریاستی اداروں اور مسجدوں کو غیر ملکی مداخلت سے دور رکھا جائے۔ مقامی طور پر طبی، تعلیمی اور فلاحی پروجیکٹ بنائے جائیں۔ مقامی مؤثر اور مخیر افراد کی سرپرستی غیر جانبدار طور پر کی جائے۔ فی الحقیقت پاکستان کی ترقی اور کامیابی کا راز دانشمندانہ رازداری اور غیر ملکی یعنی بیجا انٹرنیشنل مداخلت کا ریاستی تدارک ہے۔ طالبان سے مذاکرات ہوں یا پاکستان کے اندرونی معاملات کا واحد مؤثر حل قومی وحدت اور ملی اخوت ہے جو اور بھی قومی و ملی وحدت تحریک دیتا ہے پاکستان کا بنیادی جواز تھا۔ یہی قومی و ملی تحریک تھی جس نے قائداعظمؒ کو ملت کا پاسبان بنایا تھا۔

مزیدخبریں