یمن میں باغیوں کاجمہوری طرزِ عمل

Feb 12, 2015

فتح محمد ملک ....دنیائے اسلام

آج کل یمن میں ہوثی)زیدی)باغیوں نے حکومت پر قبضہ کر رکھا ہے- تازہ ترین صورتِحال یہ ہے کہ پارلیمنٹ تحلیل کر دی گئی ہے- کابینہ اور صدر مستعفی ہو چکے ہیں- اُنکی جگہ پانچ رُکنی صدارتی کونسل قائم کر دی گئی ہے جس کی نگرانی میں پانچ سو اکاون ارکان پر مشتمل نیشنل کونسل کے قیام کی تیاری زوروں پر ہے- یہ قومی کونسل تحلیل شدہ کونسل کی جگہ لے لے گی- باغیوں کی قائم کردہ انقلابی کونسل پارلیمنٹ کا متبادل تصور ہو گی- آج کل یہ قومی انقلابی کونسل آئندہ دو برس کیلئے عبوری حکومت تشکیل دےگی- یہ اعلامیہ سیاسی اور عسکری قائدین اورقبائلی عمائدین کیساتھ ساتھ سبکدوش ہونیوالے وزیرِ داخلہ اور وزیرِ دفاع کے تعاون کیساتھ جاری کیا گیا ہے- یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ زیدی باغی جمہوری عمل کی راہیں روشن کرنے میں مصروف ہو گئے ہوں- 

یمن عرب دُنیا کا غریب ترین ملک ہے-آج سے ربع صدی پہلے شمالی یمن اور جنوبی یمن کے اتحاد سے عرب جمہوریہءیمن وجود میں آئی تھی-جمہوریت کے فروغ و استحکام سے خائف ہمسایہ ممالک کی سرپرستی میں یہاں بھی فرقہ واریت کی بنیاد پر دہشت گردی کو ہوا دی گئی - چنانچہ یمن میں سلفی مسلک اور زیدی مسلک کے مسلمانوں کے درمیان جنگ و جدل کا اہتمام کیا گیا- یمن میں سعودی عرب اور ایران کی کرائے کی سپاہ کے باہمی تصادم نے یہاں جمہوریت کے نشووارتقاءکی راہیں مسدود کر رکھی ہیں-اس مسلسل جنگ و جدل نے آج ملک کا یہ حال کر کے رکھ دیا ہے کہ دارالحکومت اور اُس کے آس پاس کے علاقے میں زیدی مسلک کے کارکن و کارکشا مختارِ کل بن کر رہ گئے ہیں- صدر منصور ہادی ، اپنے وزیراعظم اور اُنکی کابینہ سمیت مستعفی ہو چکے ہیں اور اپنے اپنے گھروں میںنظربند ہیں- شہر کے ہر چوک میں زیدی مسلک کی جماعت کا جھنڈا لہرا رہا ہے- فرقہ واریت کے الزام سے بچنے کی خاطر اِن لوگوں نے خود کو انصار اللہ کہنا شروع کر دیا ہے- اپنے زیرِ تسلط علاقے میں سلفی مسلک کے مسلمانوں کیساتھ غیر معمولی انداز میں مہر و محبت کا ثبوت دینا شروع کر دیا ہے-
سابق صدر منصور ہادی امریکہ کے گہرے دوست ہیں- منصور ہادی 2012ءمیں منصبِ صدارت پر ”منتخب“ہونے سے پیشتر یمنی فوج میں میجر جنرل کے عہدے پر فائز رہے تھے- اِن کا صدارتی الیکشن بھی ہمارے ایک سابق صدر جنرل ضیاءالحق کے ریفرنڈم کے مانند تھا- اِنکے مقابلے میں کوئی اور اُمیدوار نہیں تھا- بس اکیلے اُمیدوار کی حیثیت سے منتخب ہو کر ،ملک میں آئینی جمہوری اصلاحات اور فورا بعد عوامی جمہوری انتخابات کرانے کے وعدے کےساتھ مسندِ صدارت پر متمکن ہوئے تھے- اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے ملک کے مختلف سیاسی گروہوں کے رہنماﺅں کیساتھ آئینی مذاکرات شروع کر دیئے تھے- جمہوریت مخالف القاعدہ دہشت گردی اور قتل و غارت گری سے مذاکرات کے اِس عمل میںبار بار رُکاوٹیں ڈالتی چلی آ رہی تھی- مذاکرات کے عمل میںباربار کے اِس التوا کے باعث صدر منصور ہادی کو آئینی جمہوری حکومت کے قیام کیساتھ ہی مستعفی ہو جانے کی مدت میں مزید ایک سال کی توسیع کی ضرورت پیش آ گئی تھی جو مذاکرات میں مصروف سیاسی زعماءنے خوشدلی کیساتھ دے دی تھی-یہ القاعدہ کی دہشتگردی کاہی شاخسانہ ہے کہ آئین سازی کے اِس عمل کی تکمیل سے پیشتر ہی زیدی مسلک کے مسلمان دارالحکومت پر قابض ہو گئے ، فوج نے اُن کا راستہ روکنے کی کوئی کوشش نہ کی اور یوں پوری کی پوری حکومت نظربند ہو کر رہ گئی-
یمن کے زیدی مسلمانوں کی سیاسی تنظیم جس نے حال ہی میں فرقہ واریت سے بلند و بالا ہونے کا تاثر قائم کرتے ہوئے ”انصار اللہ“کا نیا نام اختیار کر لیا- پیشتر ازیں جہاںوہ صر ف زیدی مسلک کے مسلمانوں کی نمائندگی کا دعوی کرتے تھے، آج وہ اللہ کے تمام بندوں کے انسانی حقوق کی پاسداری کے دعویداربن گئے ہیں- اِنکے اوّلیں رہنما حسن بدر الدین تھے جو ایران کے اسلامی جمہوری انقلاب کے فیضان کو یمن میں بھی عام کرنے کے جذبے سے سیاست میں متحرک ہو گئے تھے- وہ حزب اللہ کی سیاست کو بھی قابلِ تحسین و تقلید سمجھتے تھے- انصار اللہ کا سیاسی نعرہ ”اللہ اکبر، مرگ بر امریکہ، مرگ بر اسرائیل“ انہی کے ذہن کی اختراع ہے- آج کے حالات میں زیدی مسلمانوں کی تحریک کا یہ نیا نام اِنکے فکر و عمل میں ایک نئی اور خوشگوار تبدیلی کا اشارہ ہے- اب یہ تحریک فقط زیدی مسلک کے مسلمانوں کی تحریک نہیں رہی بلکہ آج یہ یمن کے تمام مسالک کے پیروکار مسلمانوں کے اتحادِ فکر و عمل میں کوشاں ہے- اب وہ دینی تفسیر و تعبیر کے ذرا ذرا سے اختلاف کی رائی کو پہاڑ بنانے کی سیاست فراموش کر بیٹھے ہیں اور اِسکی بجائے عوام کی حرمت و افلاس ، تعلیم و تدریس سے محرومی سے انسانی حقوق کے حصول میں مصروف ہو گئے ہیں- اقتدار پر قابض ہونے کی بجائے پرانے اور معزول حکمرانوں کو موقع دے رہے ہیں کہ وہ آئینی جمہوری حکومت کی راہ ہموار کرنے کیلئے اصلاحات کریں- مذہبی فرقہ واریت کی بنیاد پر جاری دہشتگردی سے نجات کا یہی ایک راستہ ہے- داخلی خود مختاری کی راہ بھی یہی ہے-یہی راہ اختیار کر کے یمن کی ایک مرتبہ پھر تقسیم اور تباہی کو روکا جا سکتا ہے- انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز نے اپنے 24 جنوری 1915ءکے اداریہ بعنوان Yemen on the Brink میں اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ یمن کا جغرافیائی شیرازہ بکھر کر رہ جانے کا قوّی امکان ہے - اداریہ نویس نے امریکہ ، سعودی عرب اور ایران کو مشورہ دیا ہے کہ یہ تینوں کے تینوں ممالک یمن کے اِس سنگین بحران کو مثبت انداز میں حل کرنے کی خاطر اتحادِ فکر و عمل کا ثبوت دیں- اِس اداریہ میں جہاں ایک طرف یمن کی خطرناک تباہی کی سناﺅنی سُنائی گئی ہے تو دوسری طرف ایسے تین ممالک کی متحدہ کاوش سے اُمید باندھی گئی ہے کہ وہ اِس باب میں یکجہتی کا مظاہرہ کرینگے جو یمن میں اپنی اپنی پراکسی جنگ میں مصروف ہیں- خطے کے سنگین سیاسی حقائق کے پیشِ نظر اِس امید کے مقدر میں بھی حسرت بن کر رہ جانا ہی لکھا ہے-مجھے اداریہ نویس کی اِس نیک تمنّا پر میر تقی میریاد آتے ہیں جنھوں نے صدیوں پہلے فیصلہ سُنا دیا تھا:
میر کیا سادہ ہیں ، بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطّار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ایک امریکی جیل کے اندر قید القائدہ کارکن نے عدالتی کارروائی کے دوران اِس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ 1990ءکی دَہائی میں شہزادہ سلمان سمیت سعودی شاہی خاندان کے متعدد افرادبڑی فراخدلی کیساتھ اُنکی مالی سرپرستی کرتے رہے ہیں- 28 جنوری 2015ءکے انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹریبیون میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ داعش (دولت اسلامیہ فی العراق والشام) کے پاکستانی کمانڈر یوسف السلفی نے پاکستان کے ایک قید خانے میں تفتیش کے دوران بتایا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اُسکی مالی سرپرستی ہوتی رہی ہے- ٹریبیون کے نامہ نگار ، نوید معراج نے اپنی اسی خبر میں یہ بات بھی بتائی ہے کہ پاکستانی حکام نے یوسف السلفی کے انکشافات جان کیری کےساتھ ساتھ Centcom کے سربراہ جنرل لائیلڈ آسٹن کے ساتھ ملاقات میں بھی اُٹھائے ہیں-ہرچند درج بالا تازہ ترین انکشافات کو سعودی حکومت نے نائن الیون سے پیشتر کا قصہءپارینہ قرار دیا ہے تاہم یمن میں باغیوں کے جمہوری طرزِ عمل اور جمہوریت کی جانب پیشرفت کو جغرافیائی اعتبار سے یمن کے قریب ترین ہمسایہ سعودی عرب کیلئے خطرہ تصور کیا جا رہا ہے- یہی وجہ ہے کہ جہاں سعودی سربراہی میں خلیج تعاون کونسل کے تمام ممالک نے زیدی باغیوں کے حکومت پر قبضے کی پُرزور مذمت کی ہے وہاں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون نے بھی نئے سعودی فرمانروا سے ملاقات کے بعد یمن میں اقتدار کی اِس تبدیلی کی پُرزور مخالفت کی ہے- ایسے میں دل سے بے اختیار یہ دُعا نکلتی ہے کہ اللہ کرے عرب بہار کی جنم بھومی تیونس میں جاری جمہوری پیشرفت بڑھ کر ساری کی ساری عرب دُنیا کو اپنی زندگی آمیز اور زندگی آموزگرفت میں لے لے!

مزیدخبریں