تھر میں معصوم جانوں کا ضیاع، مٹھی ہسپتال میں 52 ڈاکٹر، صرف 9 نرسیں ہیں

Feb 12, 2015

لاہور (سید شعیب الدین سے) تھرپارکر میں معصوم جانوں کے ضیاع میں مسلسل اضافہ  کے باوجود ضلع تھرپارکر کے 16 لاکھ مکینوں کو صحت کی سہولیات  فراہم کرنیوالے مٹھی کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں صرف 52 کنسلٹنٹ، ڈاکٹر اور 9 نرسیں ہیں۔ ہسپتال میں 140 بستر ہیں جبکہ مریضوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ ہسپتال میں دل کے مریضوں کیلئے  بنائے  وارڈ کو بچوں کی مسلسل اموات کے بعد بچہ وارڈ میں  تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مٹھی میں کوئی ایمبولینس نظر نہیں آئی اور نہ ہی شہر میں نجی ہسپتال ہے جبکہ 22 ہزار مربع کلومیٹر میں پھیلے   شہر میں موبائل ہسپتالوں کی اشد ضرورت ہے جو تھر کے وسیع صحرا کے گوشے گوشے میں پھیلے گائوں کے باسیوں کو صحت  کی سہولیات  فراہم کریں۔ مٹھی اور تھرپارکر کے دورے پر جانیوالی لاہور کے اخبار نویسوں کی ٹیم مٹھی ہسپتال پہنچی تو ہسپتال کی راہداریوں میں مریضوں کے رشتہ دار چادریں بچھا کر لیٹے ہوئے تھے، ایم ایس ڈاکٹر رام رتن کا دعویٰ تھا کہ تھر میں بچوں کی ہلاکت کے بارے میں خبریں بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے دعوی کیا کہ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق  پاکستان میں پیدا ہونیوالے ہر 1000 بچوں میں سے 70 پہلے سال ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں جبکہ تھر میں یہ تعداد 1000 میں 40 ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال تھر میں سہولیات موجود ہیں مگر یہاں تھر کی 16 لاکھ آبادی بیماری بگڑ جانے کے بعد پہنچتی ہے۔ تھر ضلع کی 6 تحصیلوں میں تحصیل ہسپتال ہیں مگر انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا کہ ان ہسپتالوں میں وہ ’’سہولیات‘‘ موجود نہیں جو ڈسٹرکٹ  ہسپتال میں ہیں۔ ڈاکٹر رام رتن نے کہا کہ تھر میں سب سے بڑا مسئلہ  نرسوں کا ہے۔ یہاں لڑکیاں نرس بننے کیلئے تیار نہیں ہوتی ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ کے سیکرٹری جنرل، وزیراعلی سندھ کے کوآرڈینیٹر سینیٹر تاج حیدر نے بتایا کہ ہسپتال اور تحصیل ہسپتالوں میں اور ہیومن ریسورس کی کمی دور کرنے کیلئے کوشاں ہیں، لیکن بدقسمتی سے اندرون سندھ اس قدر دور آکر انسانیت کی خدمت کرنیوالے بیحد کم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امریکی پاکستانیوں کی ایک این جی او نے صحت کے شعبے  کیلئے ساڑھے تین ارب روپے دئیے ہیں۔ حکومت سندھ ڈیڑھ ارب  دے رہی ہے ان 5 ارب روپوں سے ہسپتالوں میں سامان کی کمی دور کی جائیگی۔

مزیدخبریں