”سکیورٹی میں خود فریبی کو روکیں“

وطن عزیز میں سکیورٹی اسوقت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔جسقدر بچے ،خواتین اور جوان شہید ہو رہے ہیں وہ قوم کیلئے نا قابل برداشت ہے خصوصاً جبکہ آئندہ کئی سالوں تک یہ نا سور رستا دکھائی دیتا ہے۔حکومت سکیورٹی مسائل پر قابو پانے کیلئے کافی جتن کر رہی ہے مگر ایک تو وہ روائتی طریقوں سے نکل نہیں پا رہی اور دوسرا عوام اپنے آپکو کسی طرح بھی آگے بڑھ کر حکومت کو سپورٹ نہیں کر رہے۔اسکی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک عمومی طور پر اس پہلی ضرورت کا آخری ترجیح سمجھا جانا ہے۔پھر اسی سے کافی ساری کمزوریاں جنم لیتی ہیں جن کو ہمیں طاقت میں بدلنے کا سوچنا ہے۔ میرے نزدیک سر فہرست پبلک اور پولیس کی ہم آہنگی کا فقدان ہے۔دوسرا عملیت پسندی کی بنیاد پر نئے سسٹم متعارف کروانے کی بجائے ذمہ داروںکا پرانے رولز اور کاغذی کاروائیوں پر انحصار ہے۔ تیسرا اپنے دفاتر ،سکولز، مارکیٹ وغیرہ کے سکیورٹی پلان تیار کرنے کی اہمیت کا ادراک نہ ہونا۔چوتھا اپنے گارڈزکو متوقع حملہ آوروں کیمطابق تیار نہ کرنا اور پانچواں اسلحہ پر موثر کنٹرول کا نہ ہونا ہیں۔ موضوع کی وسعت اتنی زیادہ ہے کہ ایک کالم اس کا متحمل نہیں ہو سکتا لہٰذا صرف چند ایک اہم تجاویز نذر قارئین کی جاتی ہیں:-
1۔تحفظ عامہ حکومتی سطح پر آرگنا ئز کرنا چاہیے۔ہر اخبار ،ٹی وی چینل ،تعلیمی و دیگر اداروں پر لازم ہو کہ کم از کم مہینے میںایک بار اس موضوع کو بھر پور طریقے سے زیر بحث لائیں۔ جسطرح لاہور پولیس بیٹ سسٹم اور SMSکے ذریعے کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم کا اجراءکر رہی ہے اسی طرح ہتھیار اور گارڈز کا ریکارڈ مرتب کر کے پبلک انٹیلی جنس نیٹ ورک کو کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ اگر لوگ اپنی گلیوں کو دہشت گردوں اور مجرموں کیلئے غیر محفوظ کر دیں تو آدھا مسئلہ یہیں حل ہوجائیگا۔ دہشت گردوں کی اسی معاشرے سے بھرتی،آبادیوں میں جرم سے پہلے اور بعد میں روپوش ہونے کی سہولت، آزادانہ ریکی اور اثرو رسوخ کے اڈے عوام کی رضا کارانہ شمولیت کے بغیر بند نہیں کئے جاسکتے۔
2۔جتنی بھی وارداتیں ہوئی ہیں ان میں سے بیشتر جگہوں پر تحفظ میں کمزوریاں نظر آئی ہیں مگر کا غذی کارروائیوں کے مطابق تمام ذمہ دار لوگ اپنے فرائض پورے کر چکے تھے۔اب وقت آگیاہے کہ ہر ذمہ دار اپنی سوچ کو کسی SOPتک محدود کرنے کی بجائے ہر لمحہ دہشت گردوں کی سوچ سے تیز اور نتیجہ خیز رکھتے ہوئے اپنے سکیورٹی پلان کو اپ ڈیٹ کرتا رہے۔ فقط چار گارڈ کھڑے کرنے یا کیمرے لگانے سے کوئی دہشت گرد نہیں ڈرتا۔انہیں اس بات کا ڈر اور اپنوں کو یقین ہونا چاہیے کہ دہشت گردوں کو ہدف تک کوئی پہنچنے نہیں دے گا ۔اور اگر پہنچ بھی گیا تو نقصان کم سے کم ہو گا۔
3۔دفاتر، سکولز، پلازے ودیگر مقامات، خصوصاً جہاں پر پبلک کا آنا جانا زیادہ ہو،ان کیلئے ایک ایسے مکمل سکیورٹی پلان کی ضرورت ہے جس میں ہر قسم کی ممکنہ دہشت گردی کا کسی حد تک مقابلہ کرنے ،لوگوں کو نکالنے ،QRF، ریسکیو سروس اورفائر بریگیڈکے اپریشن کی وژن ہو۔نئی بلڈنگز کیلئے تو سکیورٹی پلان کو، بجلی، پانی، سیوریج کے ساتھ کنٹرکشن پلان کا لازمی حصہ قرار دیا جائے۔
4۔سکیورٹی گارڈوں کی صلاحیت بڑھانے اور انہیں موثّر بنانے کیلئے ہمیں اشد غور وفکر کی ضرورت ہے۔ پہلے روّیوں کے بر عکس اب ایک ایسا چوکس گارڈ چاہیے جو خود پر،اپنے ہتھیار پر اور اپنی حکومتی پشت پناہی پر اعتماد رکھتا ہو۔گارڈ تو اب حملہ آوروں سے مقابلہ کرتے اور شہید ہوتے نظر آتے ہیں مگر حکومتی سر پرستی سے آج بھی محروم ہیں۔ چند اقدامات جن سے حکومت پولیس کو سکیورٹی گارڈوں کی صورت میں بہترین سیکنڈ لائین فورس مہیا کر سکتی ہے:-
ا۔سکیورٹی کمپنیوں کیلئے رولز کو از سر نو مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس میں واضح کیا جائے کہ ان سے کس درجہ کی جنگی صلاحیت کی توقع کی جاسکتی ہے اور حکومت انہیں کسطرح یہ سٹینڈرڈ حاصل کرنے میں مدد دےگی۔ انہیں دوکیٹیگریز میں تقسیم بھی کیا جا سکتا ہے۔ آرمڈ سکیورٹی گارڈز اور واچ مین۔ آرمڈ سکیورٹی گارڈ اچھے اسلحے اور فوجی ٹریننگ کیساتھ پولیس کی اپریشنل بیک اپ ہوں، جبکہ واچ مین انفارمیشن سسٹم کاحصہ بنائے جاسکتے ہیں۔
ب۔گارڈوں کی بھرتی کے وقت سب سے زیادہ ضرورت انکی سکیورٹی کلیرنس کی ہوتی ہے۔موجودہ سسٹم میں یہ کام بذریعہ ہوم ڈیپارٹمنٹ سپیشل برانچ سے کروایا جاتا ہے جس میں مہینے لگ جاتے ہیں۔ اتنی دیر تک گارڈ کو ڈیوٹی دینا جرم ہے اور نہ دی جائے تو وہ کہیں اور چلا جاتا ہے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ تصدیق ڈائریکٹ پولیس سے کروائی جائے۔ سکیورٹی کمپنیاں اپنے گارڈز کے کوائف کا مروجہ فارم پر کر کے سیدھا اسکے ہوم پولیس سٹیشن پر بھجوائیں جنہیںایک ہفتہ کے اندر اندر اپنے ریمارکس کیساتھ SDPO کے ذریعے واپس بھجوانے کی ہدایات ہوں۔ پرائیویٹ گارڈ رکھنے والوں پر لازم ہو کہ یہی کارروائی وہ اپنے پولیس سٹیشن کے ذریعے کروائیں تاکہ ان کاریکارڈبھی بنتا رہے۔
ج۔گارڈوں کے اوقات کار 8گھنٹے سے زیادہ رکھنا اور پھر چوکسی کی امید دومتضاد چیزیں ہیں۔اس پر پابندی کےساتھ ساتھ انکی روزِ اوّل سے 5لاکھ کی انشورنس بذمہ کمپنی یا پرائیویٹ ایمپلائر یقینی بنائی جائے۔
د۔سکیورٹی کمپنیوں کو ہر گارڈ پر ہر ماہ بل کا40فیصد کچھ اسطرح ادا کرنا ہوتا ہے8% ودہولڈنگ انکم ٹیکس،GST 16%،7%سوشل سکیورٹی،7%ای او بی آئی ، 2%انشورنس ۔یعنی 30ہزار پر دیئے جانے والے گارڈ کے عوض کمپنی کو 18000روپے ملتے ہیں۔جس میں اسکی تنخواہ، وردی ، ہتھیار ،کمپنی کا خرچہ اور منافع شامل ہے۔ لوگ اسی سکیورٹی گارڈ کو 30000 کی بجائے 15000روپے میں ڈائریکٹ رکھ لیتے ہیںلہٰذا سکیورٹی کمپنیوں میں جہاں حکومتی کنٹرول ہے، اچھے گارڈوں کی تعداد کم ہو رہی ہے اور پرائیویٹ ایمپلائز کے پاس جہاں کوئی کنٹرول نہیں، تعداد بڑھ رہی ہے یہ رجحان آئندہ کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔عوام اور اداروں کو مناسب خرچے پر اچھی سکیورٹی فراہم کرنے کیلئے حکومت کو سکیورٹی کمپنیوں کی سر پرستی کرنی چاہیے۔ اصولی طور پرسکیورٹی ریاست کا کام ہے اور افراد کا اس پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہونا چاہیے مگر ہمارے حالات کے مطابق یہ بوجھ ہم سب کو بانٹنا ہے ۔تاہم حکومت اگر سبسڈی نہیں دے سکتی تو کم از کم GST کا بوجھ ہی ختم کر دے۔سکیورٹی کمپنیوں کی انوائس میں 80% سے زیادہ تنخواہیں ہو تی ہیں لہٰذا یہ کیس ہمدردانہ توجہ کا مستحق ہے۔
و۔آج دہشت گردوں کے پاس لا تعداد اور بہترین اسلحہ ہے۔پرائیویٹ گارڈوں کے پاس ایمپلائرز کی اٹھائی ہوئی کلاشنکوفیں ہےں۔ مگر سکیورٹی گارڈ کے پاس اسلحہ سب سے کمزور ہوتا ہے۔ حکومت کو میرٹ پر اچھے سٹینڈرڈ رکھنے والی سکیورٹی کمپنیوں کو کلاشنکوف وغیرہ کے لائسنس دینے چاہئیں۔
جب تک سکیورٹی کیلئے پریکٹیکل سوچ،پلاننگ کا طریقہ ،عوام کی شمولیت ،گارڈوں کی مکمل ٹریننگ، سکیورٹی کمپنیوں کی سر پرستی اور غیر رجسٹرڈ پرائیویٹ گارڈوں پر کنٹرول نہیں ہو جاتا ہم سکیورٹی میں خود فریبی کا شکار ہوتے رہیں گے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...