گیلنسی رپورٹ اور بھارت

محترمہ نازیہ مصطفی کا مضمون” بھارت گیلنسی رپورٹ پڑھ لے“ نظر سے گزرا۔ موصوفہ لکھتی ہیں ”16مارچ1846 کو انسانی تاریخ کا سب سے مکروہ فعل سر انجام پایا۔ اس دن انسانی تاریخ کی سب سے بڑی بردہ فروشی ہوئی تھی جب انگریزوں اور ڈوگرا راجہ گلاب سنگھ کے درمیان بدنام زمانہ معاہدہ امرتسر طے پایا اور انگریزوں نے 75 لاکھ نانک شاہی وصول کر کے لاکھ کشمیریوں کو سکھوں کے ہاتھ فروخت کر دیا“۔
عرض ہے کہ انگریزوں نے ریاست جموں و کشمیر راجہ گلاب سنگھ کو اسکی وفاداریوں کے سبب سستے داموں گفٹ کردی اور گلاب سنگھ سکھ نہیں تھا وہ ہندو تھا۔ گلاب سنگھ نے سر پر کیس اس دور میں رکھے جب وہ مہا راجہ رنجیت کی فوج میں سپاسی بھرتی ہوا۔
کیپٹن جو زف ڈیوی کنگم اپنی کتاب ”History of sikhs“ میں لکھتا ہے۔ گلاب سنگھ کا تعلق بہت غریب ہندو فیملی سے تھا۔ وہ کورا ان پڑھ تھا۔ اسے قلعہ منگلہ میں تین روپے ماہانہ کی نوکری ملی‘ کچھ عرصہ بعد وہاں سے نکال دیا گیا اور بھمبر کے سلطان کی فوج میں شامل ہوا۔ وہاں سے بھی نکالا گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج میں بھرتی ہوا جہاں اسکے دو بھائی دھیان سنگھ اور سچیت سنگھ تھے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ دور میں یہ تینوں بھائی راجے بنے۔ دھیان سنگھ مہاراجہ کا وزبراعظم بنا۔ گلاب سنگھ کا گاو¿ں اسماعیل پور پٹھان کوٹ روڈ پر جموں سے 12 میل کے فاصلے پر تھا۔ مورخین ان دونوں بھائیوں کو سنگھ سلطنت کی تباہی کا باعث گردانتے ہیں۔ راجہ گلاب سنگھ رنجیت سنگھ کی وفات کی دوسری رات شاہی خزانہ چھکڑوں میں لاد کر جموں لے گیا۔
راجہ گلاب سنگھ جو اب راجہ بن چکا تھا۔ موصوف نے افغان وار اور پنجاب فتح کرنے میں انگریزوں کی مدد کی۔ انہیں اسلحہ اور فوجیں مہیا کیں اور سکھ وارز میں جنگوں کے دوران سکھ فوجوں کی پلاننگ برٹش ہائی کمان کو پہنچاتا رہا۔ چونکہ وہ مہا رانی جیداں کور کا بااعتماد وزیر تھا وہ جنگوں میں سکھ فوجوں کو اصل بارود کی بجائے نقلی بھجواتا رہا اور وہ سکھ جرنیلوں کو لڑنے کی بجائے بھاگنے یا پسپائی پر اکساتا رہا۔ ان حقائق کا تو بعض انگریز مصنفین کی کتابوں سے پتہ چلتا ہے۔ اس دور کے انگریز دفاعی تجزیر نگاروں کی تحریریں عکاس ہیں کہ انگریز نے پنجاب میں اپنے سب سے بڑے سہولت کار کو ریاست جموں وکشمیر سکھوں سے چھین کر اسکی ان گنت وفاداریوں کے سبب گفٹ کر دیا۔ 75 لاکھ نانک شاہی راجہ جی نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے لوٹے ہوئے خزانے اورانگریز کے ایک ٹھیکیدار سے ادھار لے کر ادا کی جس کےلئے راجہ نے کشمیریوں اور مسلمانوں پر بھاری ٹیکس نافذ کر دیئے۔ آزادی کی تحریکوں، بغاوتوں کو بے رحمی سے کچل دیا گیا۔ ایک کی غلطی پر خاندانوں کا صفایا کردیا جاتا۔ آزادی کے متوالوں کو خاندانوں سمیت مروا کر انکی کھالوں میں بھوسہ بھر کر سٹرک کنارے رکھوا دیا جاتا اور سولیوں پر لٹکا دیا جاتا تاکہ دوسروں کےلئے عبرت نگاہ ہوں۔ 1947ءتک زعفران کے ہزاروں ایکٹر رقبوں سے صرف 1% آمدن مزدور کی 99% راجہ کی رہی اور یہ نظام سو سال تک ریاست جموں و کشمیر کا مقدر بنا رہا۔ راقم جب 1946ءمیں وادی کشمیر گیا وہاں مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ دیکھی۔ مسلمان کشمیریوں میں غربت وافلاس‘ ڈر اور خوف عام دیکھا۔ ایک ہندو بنئے کو 100 مزدوروں کو گالی گلوچ اور ڈنڈوں سے ہانکتے دیکھا۔ کیا مجال کہ کوئی آنکھ اٹھا کر بھی اسکی طرف دیکھ سکے۔
وادی کشمیر پر قبضہ کےلئے راجہ گلاب سنگھ کو بھی جنگ کرنا پڑی تھی مہاراجہ رنجیت سنگھ کے گورنر شیخ امام الدین نے گلاب سنگھ کی فوج کا مقابلہ کیا۔ سری نگر کے قریب لڑائی میں شکست کھا کر گلاب سنگھ وائسرائے لارڈ ہارڈنگ کے پاس امداد کےلئے پہنچا۔ وائسرائے نے ستمبر 1846ءجالندھر دوآب کے کمانڈانٹ بریگیڈئیر ویلیئر کو حکم دیا کہ وہ فوری راجہ جی کی مدد کو جائے۔ اب راجہ اور فرنگی فوج کا شیخ امام دین کی فوج مقابلہ نہ کر سکی اور وادی کشمیر پر راجہ گلاب سنگھ کا قبضہ ہو گیا۔ 5اگست 1947ءمہا تما گاندھی نے واہ ٹاو¿ن تقریر میں کہا تھا ”معاہدہ امرتسر اصل میں سودا بازی تھی۔ بیوپاری انگریز گورنر جنرل اور خریدار مہاراجہ گلاب سنگھ تھا۔ معاملہ فہمی کا یہی تقاضہ ہے کہ کشمیریوں کی مرضی اور انکی خود ارادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کشمیر کا فیصلہ کیا جائے“۔
محترمہ نازیہ صاحبہ لکھتی ہیں کہ ”1932ءمیں انگریز افسربی جے گیلنسی کی سر براہی میں کشمیریوں کی شکایات سننے‘ تحفظات جاننے اور انکی حالت زار جاننے کےلئے گیلنسی کمیشن قائم ہوا۔ گیلنسی کمیشن نے ڈوگرا حکومت کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔ گیلنسی کمیشن کی یہ رپورٹ دراصل کشمیری مسلمانوں پر توڑے جانیوالے مظالم کا نوحہ تھا۔ اس رپورٹ پر بھی کوئی عملدرآمدر نہ ہوا“۔ محترمہ نازیہ صاحبہ نے بھارتی نیتاو¿ں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ”بھارتی گیلنسی رپورٹ پڑھ لیں“ تاکہ ان کی مظلوم کشمیریوں کے متعلق سوچ میں ہمدردی‘ رحم دلی‘ درمندی، مخلصانہ رویہ یا شفقت کے آثار پیدا ہو سکیں۔ کیا یہ ممکن ہے؟
ریاست جموں وکشمیر بھارتی تسلط کے بعد کشمیری مسلمانوں پر جو ظلم وستم ہوا اسکی مثال برصغیر میں نہ انگریز دور نہ ڈوگرا راج میں ملتی ہے۔ 7 لاکھ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں خیمہ زن ہے۔وہاں مارشل لاءسے بھی زیادہ سخت فوجی قوانین نافذ ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ 23 ہزار کشمیری خواتین کی عصمت دری ہو چکی ہے۔ جگہ جگہ اجتماعی قبریں منظر عام پر آرہی ہیں۔
ہمارا کوئی امریکی یورپی اتحادی مسئلہ کشمیر حل کرانے کےلئے تیار نہیں۔ جواب یہی ملتا ہے کہ دونوں ملک مذاکرات کے ذریعے باہمی طور پر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں۔ جب مشرقی تیمور یا دارفر میں عیسائیوں کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو مغربی طاقتیں اور انکل سام بھی چیخ اٹھتے ہیں۔ یواین او بھی فعال ہو جاتی ہے۔ عیسائیوں کی فلاح و بہبود کےلئے ان ممالک کو دولخت کر دیا جاتا ہے۔ بھارت کشمیر مسئلہ پر مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہی نہیں چاہتا۔ ہمارے حکمران کشمیر ڈے پر اتنا کہہ کہ خاموش ہو جاتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ جوابدہ ہے یا اقوام متحدہ کی کچھ قراردادوں پر عمل سیاہی سوکھنے سے قبل اور کچھ پر صدیاں گزر جانے کے بعد بھی نہیں ہوتا۔ آخر کیوں“ (نواز شریف)
اب تو بھارتی وزیراعظم نے اپنے انتخابی منشور میں اعلان کیا ہے کہ وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے بھارت کا اٹوٹ انگ بنالیں گے۔ بھارتی وزراءکئی بار اعلان کر چکے کہ ان کا آئندہ ہدف آزاد کشمیر ہوگا۔ ادھر آزاد کشمیر کا صدر بیان دیتا ہے کہ ”مقبوضہ کشمیر قلم کی طاقت سے آزاد کرائیں گے“۔ بھارت تو بندوق کی زبان سمجھتا ہے اور ہمارے بعض معزز دانشور بھارتی عقابوں کو نرم دل بنانے کےلئے گیلنسی رپورٹس پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ بھارتی نیتا جو کئی بار پاکستانیوں کو سرجیکل سٹرائیکس کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔ جن کی ”را“ ایجنسی نے دہشتگردوں کو بھیج کر طالب علموں کا قتل عام کرایا۔ بھارت نے ہمارے دریاو¿ں کا پانی بند کر دیا ہے، ہمارے سابق حکمران نے بھارت کو چناب پر بگلیہار ڈیم بنانے کی اجازت دی اور جب بن گیا تو بھارتی نیتاو¿ں کو مبارک باد دی۔ اب دربائے چناب 95% خشک ہو چکا ہے۔ اس وقت ہیڈ مرالا سے نکلنے والی صرف ایک نہر چالو ہے۔ دریائے چناب میں اکثر جگہ گھاس اگ آئی ہے۔ راوی تو گندا تالاب بن چکا ہے۔ کالا لاغ ڈیم کی تعمیر کو بعض سیاست دانوں نے روک دیا ہے۔ سنا ہے اسں کام میں بھارتی ایجنسی ”را“ اربوں روپے تقسیم کر چکی ہے۔ چینی جرنیل SUN-ZU کی ڈاکٹرائن پر بھارتی پوری طرح عمل پیرا ہیں۔ سن زو لکھتا ہے کہ ” عظیم ترین چال کہ جنگ کئے بغیر دشمن کی قوت مدافعت ختم کر دو“۔
یہی چال اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان میں چلی تھی۔ بھارت کشمیر میں نہتے کشمیری مسلمانوں پر ظلم و بربریت کی انتہا کر کے انکے جذبہ حریت اور حب الوطنی کو کچل رہا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی، خانہ جنگی کی آگ بھڑکا کر‘ ہمارے دریاو¿ں کو گندے نالے، ہمارے بعض سیاست دانوں کو خرید کر اپنے سہولت کار بنا کر اور پاک فوج کو دہشتگردوں کے تعاقب میں بکھیر کر شاید سقوطِ ڈھاکہ کے خواب دیکھ رہا ہے۔
اگر ایسا ہوا تو ایٹمی جنگ ہو گی۔ پٹھانکوٹ میں خود ڈرامہ رچاکر جو بھارتی وزیر دفاع نے پریس کانفرنس میں پاکستان کو ایٹمی جنگ کی دھمکیاں دیں۔ شاید وہ آرزو پوری ہو جائے .... پھر نہ دلی رہے گا نہ لاہور اور اکھنڈ بھارت کے خواب بھاپ بن کر اڑ جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن