موجودہ صورتحال دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے امن ہم سے روٹھ گیا ہو، ہر طرف ڈاکو راج ہے کون کونسی داستان بیان کی جائے۔ دو روز قبل محلے میں ڈاکو آئے اور لوگوں کے بیدار ہونے پر رفو چکر ہو گئے لیکن اب انہوں نے معمول بنا لیا ہے۔ ہر رات کو محلے میں پولیس کی طرح چکر لگانا شاید انہوں نے بھی ضروری سمجھ لیا ہے۔
محلے کے لوگوں نے ان کے سدباب کی بات کی تو میں بے بس نظر آیا کیونکہ میں ابھی تک منڈی بہائوالدین میں اپنے ساتھ پیش آنے والے 2013ء میں ڈکیتی کے واقعہ کا کچھ نہیں کر سکا تو دوسروں کی مدد کیسے کر سکتا ہوں؟ حالانکہ میں نے آئی جی آفس سے لیکر سیکرٹریٹ تک ہر جگہ دستک دی لیکن ایک ہی آواز آتی تھی سر میٹنگ میں مصروف ہیں۔ بھلا آدمی پھر کتنے چکر لگائے۔ وہ تھک ہار کر بیٹھ جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے کیونکہ کچھ ڈاکو لوٹ کر لے گئے باقی کچھ اور دینے سے ہی کام بنے گا ورنہ کون ریکوری کرواتا ہے ؟ایک دفعہ کچھ ڈکیت پولیس کے شکنجے میں بھی آئے تھے لیکن تفتیشی نے لفٹ ہی نہیں کرائی۔ حکومت ہر محکمے کی تشکیل نو کے پروگرام بناتی ہے لیکن 68 سال گزر گئے وہ پولیس کے محکمے کی ایک کل بھی سیدھی نہ کر سکی۔
سابق آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمن نے اہلکاروں کی توندیں کم کرنے کا حکم جاری کیا تو ہر روز باغ جناح اور ریس کورس میں وردی پہنے کچھ اہلکار ایسے دوڑتے نظر آتے جیسے چور انہیں دیکھ کر دوڑتا ہے لیکن حاجی صاحب کے ریٹائرمنٹ ہونے کے بعد ان کے احکامات والی فائل بھی غریب لوگوں کی درخواستوں کی طرح فائلوںکے نیچے دب گئی۔
درخواست کے بعد پولیس صرف ’’ارادالطریق‘‘ راستہ دکھانے کا کام کرتی ہے حالانکہ ’’اصال الی المطلوب‘‘ ان کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ یعنی چور اور ڈاکو کو پکڑنا۔
پی آر او صاحبان تو افسران سے بڑے آفیسر ہیں اگر کوئی صحافی ان تک بات لیکر جائے تو وہ پہلے یہ تفتیش کرتے ہیں کہ آپ کو میرا نمبر کس نے دیا؟ جناب کمال ہو گیا اگر آپ کو یہ ناگوار گزرتا ہے اورآپ کو فون سُننے سے بھی کوفت ہوتی ہے توآپ پبلک کو ڈیل کرنے کی ذمہ داری اپنے نازک کندھوں پر مت اٹھائیں۔ عوام تو پہلے ہی سیاسی بزر جمہروں کے ہاتھ لُٹ لُٹ کر اس قدر بدحال ہو چکے ہیں کہ ڈاکوئوں اور چوروں کو دینے کے لیے ان کے پاس کچھ بچا ہی نہیں۔ جب ہمارے پولیس افسران کی نوکری نصف النہار پر ہوتی ہے تو بے شمار اہل قلم مسلسل حالت رکوع میں رہتے ہیں۔ قلم قرطاس کی مملکت کے شہزادے انہیں ایماندار، فرائض منصبی پورے کرنے والے ظل الٰہی ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ منڈی بہائوالدین رسول روڈ پر ڈاکو ڈاکٹرنذیر احمدکو اغوا کرنے آ دھمکے۔
کاش ان ظالموں کو کوئی بتاتاکہ جب تم پولیس مقابلوں میں زخمی ہوتے ہو تو یہی مسیحا آپ کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں نوجوان گھبرو، خوبصورت اور خوب سیرت ڈاکٹر شاہد نذیر والد کو بچانے کے لیے سامنے آیا تو ظالموں نے فائرنگ کر کے اسے شہید کر دیا۔ میں نے پہلی مرتبہ دیکھا کہ پورا منڈی بہائوالدین شہر اس کے سوگ میں بند تھا۔ وہ انسانوں سے محبت کرنے والا نوجوان تھا۔ ڈاکٹر شاہد نذیر نے جس طرح دُکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کی آج بھی پوری دنیا اس کی معترف ہے گو کہ باشرع ڈی پی او منڈی بہائوالدین نے ڈاکٹر شاہد نذیرکے جنازے میں شرکت کی اور تین دنوں میں قاتلوں کو کمین گاہوں سے نکال کر سامنے لانے کا بھی اعلان کیا لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو ایفا ہو سکے۔ ہزاروں وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔
چیف سیکرٹری جناب خضر حیات گوندل میرے اسی شہر سے تعلق رکھتے ہیں سیکرٹری وزیر اعلیٰ پنجاب امداد اللہ بوسال کا خمیر بھی اسی مٹی سے اٹھایا گیا ہے جبکہ مشیر توانائی برادرم شاہد ریاض گوندل بھی اسی شہر کے باسی ہیں ان سب نے ڈاکٹر شاہد نذیر کے قتل پر دکھ کا اظہار تو کیا لیکن قاتلوں کی گرفتاری میں ابھی تک کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی۔ایسے کاموں میں لاہور کی پولیس بڑی چست ہے وہ ظلمت شب سے سپیدہ سحر برآمد کرنے اور خزائوں کی کوکھ سے بہاریں جنم دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی اس پر کبھی پھر بات ہو گی کہ لاہور میں کس کا راج ہے ڈاکوئوں کا یا پولیس کا۔ فی الحال میں خادم پنجاب سے ہی گزارش کروں گا کہ وہ کوئی ایکشن لیں۔ پولیس والے غریب آدمی کی آواز کب سنتے ہیں اس میں ان کا کوئی قصور نہیں بلکہ لوگوں نے جب سے بڑے کالروں والے خوبصورت کپڑے پہننا شروع کئے ہیں تب سے ان کی نظر گریبان کی طرف نہیں جھکتی۔ ہم کس قدر سنگ دل ہیں یہ گلشن جس کے ہر شجر کی آبیاری ہمارے بزرگوں کے خون سے ہوئی ہے ہم اس گلشن کو بے ثمر ہی رکھنا چاہتے ہیں۔
اگر کسی مخلص کی کوشش کے نتیجے میں کسی پودے پر شگوفے کھلتے دکھائی دیں تو ہم انہیں پائوں تلے روندنے کے لیے چڑھ دوڑتے ہیں ذرا ٹھنڈے دل سے سوچئے اس گلستان کا انجام کیا ہو گا جس کے باغبان ہی اسے بہار سے محروم رکھنا چاہتے ہوں جس کے رکھوالے اس کی جڑوں پر تیشے چلانے سے دریغ نہ کریں۔ حاجی حبیب الرحمن پولیس کے محکمے میں کافی اصلاحات لائے لیکن اب اس محکمے کا حال سب کے سامنے ہے اگر یہ ایک محکمہ سدھر جائے تو باقی بہت سارے محکمے خود بخود ہی سیدھے ہو جائیں گے قتل و غارت ختم ہو جائے گی اور امن وسکون کا دور دورہ ہو گا کاش کوئی تو اسے سدھارنے کی کوشش کرے۔