لاہور کے یونین کونسل دفاتر ”بے آباد“ کب تک؟

وزیر اعلیٰ شہباز شریف عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ پنجاب کا نظام چلانے کے دعوے دار ہیں، یہ ہاتھ وہ مختلف صوبائی محکموں کی نبض پر بھی رکھتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ایک بڑے حلقے کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں جس توازن کی ضرورت ہے وہ دکھائی نہیںدے رہا۔ مثلاً محکمہ صحت اور اس کے بھی ایک حصے یعنی ڈاکٹروں کی کارکردگی پر ان کی توجہ زیادہ دلائی جا رہی ہے۔ اچانک چھاپوں سے لے کر ضروری غیر ضروری معطلیوں تک وہ آئے دن خبروں میں اتنا ”ان“ رہتے ہیں کہ اب عام تاثر منفی ہونے لگا ہے۔ اس شعبے کے ان کے مشیروں کو شاید اس نقصان کا احساس نہیں ہے۔ یہ جو میں نے مختلف شعبوں کی نبض پر ہاتھ رکھنے میں عدم توازن کی بات کی ہے تو میرا اشارہ بلدیاتی نظام یا مقامی حکومتوں کے روبہ عمل ہونے کے باوجود بے عمل ہونے سے ہے۔ میاں شہباز شریف کو شاید کوئی نہیں بتا رہا کہ گزشتہ دو تین ماہ سے یونین کونسلوں کے دفاتر عملاً برباد ہو چکے ہیں۔ ایڈمنسٹریٹروں کی واپسی اور یوسی چیئرمینوں کی طرف سے ان کی جگہ لینے کا سارا عمل بدنظمی کا شکار ہے۔ جب لاہور جیسے آدھے پاکستان کے برابر صوبہ پنجاب کے دارالحکومت کے یونین کونسلوں کے دفاتر میں کام ٹھپ ہو تو باقی چھوٹے شہروں، قصبات اور پھر دور دراز کے دیہی یوسی مراکز کا کیا حال ہو گا؟ لاہور شہر میں کل 274 یونین کونسلیں ہیں جہاں چیئرمین منتخب ہو چکے ہیں۔ ایڈمنسٹریٹروں کی بہت دن ہوئے واپسی ہو چکی ہے۔ یونین کونسلوں کے یہ دفاتر جمہوری معاشرے میں کسی بھی صوبائی حکومت اور عوامی طاقت کا ایک ساتھ سر چشمہ ہوتے ہیں لیکن طاقت کے یہ مراکز شاید کسی سازش کے تحت ویران پڑے ہیں۔
یہ خاموش سازش وزیر اعلیٰ کے خلاف بھی ہو سکتی ہے اس لئے کہ اگر ایڈمنسٹریٹروں کی رخصتی کے ساتھ ہی یوسی چیئرمینوں کو اختیارات دے کر ان دفاتر میں بنیادی نوعیت کے عوامی کاموں کی تکمیل کا تسلسل قائم رہتا تو مسلم لیگ ن اور میاں صاحبان کی بلے بلے ہونی تھی۔ لاہور میں 274 یوسی چیئرمینوں میں سے 228 چیئرمین تو ویسے ہی مسلم لیگ ن کے ہیں۔ کسی طرح کے کسی بھی طرف سے خطرے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ پھر ایسا کیوں ہوا کہ گزشتہ چند ماہ سے عوام کو جنم پرچی، بے فارم، اموات سرٹیفکیٹ، خانگی معاملات، ثالثی عدالت، نکاح سرٹیفکیٹ اور اسی نوعیت کے متعدد کاموں کیلئے خوار ہونا پڑ رہا ہے۔ یونین کونسلوں کے کمپیوٹر بند پڑے ہیں۔ نادرا سے مختلف سرٹیفکیٹ کیلئے رابطہ ٹوٹا ہوا ہے۔ سیکرٹری صاحبان اور متعلقہ عملہ بے بسی کا نمونہ نظر آتا ہے۔ عوام کو یہی جواب دیا جاتا ہے کہ چند دنوں میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لاکھوں لوگوں کے ان گنت کام یونین کونسلوں کی بے عملی اور بے بسی کی وجہ سے رکے پڑے ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ اس سارے بحران کا ذمہ دار کون ہے۔ کیا سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کیا حکومت پنجاب؟ کیا کوئی اور ان دیکھا ہاتھ۔ بہرحال ذمہ دار کوئی بھی ہو اصل نقصان مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت کا ہو رہا ہے جس سے عوام کو بدظن کیا جا رہا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں تاریخی کامیابی کے بعد کسی سازش کے تحت بحران پیدا ہو رہا ہے جبکہ صرف لاہور کو دیکھا جائے تو ان انتخابات کے بعد لاہور کی میئر شپ اور 9 ڈپٹی میئروں کے انتخاب کے وقت حکومت کو کسی طرح کی مزاحمت تک کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ مسلم لیگ ن کے امیدوار کرنل (ر) مبشر جاوید اپنے پینل یعنی تمام ڈپٹی میئروں کے ساتھ بلا مقابلہ کامیاب ہوئے تھے ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے عفیف صدیقی دس یوسی چیئرمینوں کے باوجود اپنا پینل تشکیل نہ دے سکے اور یوں کرنل صاحب اور ان کی ٹیم کسی مقابلے کے بغیر لاہور کے حکمران ٹھہرے۔ اب جبکہ یہ تمام مرحلے ختم ہو چکے ہیں تو ہم لارڈ میئر کرنل (ر) مبشر جاوید کی توجہ لاہور کے ویران یوسی دفاتر کی طرف دلائیں گے اگر تو اس ضمن میں ڈسٹرکٹ مجسٹریسی کے نظام کا انتظار تھا تو پنجاب اسمبلی کے فورم سے یہ معاملہ بھی نمٹایا جا چکا ہے۔ کرنل صاحب اب وزیر اعلیٰ پنجاب کی توجہ اس اہم مسئلہ کی طرف دلائیں۔ یہ جہاں مسلم لیگ ن کی ساکھ کا معاملہ ہے۔ اس سے زیادہ اس کا تعلق عوام کے بڑھتے ہوئے مسائل سے ہے جو ایک عرصہ سے معلق ہیں۔ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر صوبائی معاملات چلانے کے دعویدار وزیر اعلیٰ کو ایک چھاپہ یونین کونسلوں کے دفاتر میں بھی مارنا چاہئیے۔ ایک چھاپہ تعلیمی اداروں، سکولوں، کالجوں میں بھی مارنا چاہئیے اور خاص طور پر ایک چھاپہ سرکاری دفاتر میں بھی مارنا چاہئیے تاکہ توازن نظر آئے۔ ویسے اگر وہ خود چھاپوں کی بجائے اپنی مشینری کو متحرک کریں تو زیادہ اچھا ہو گا کیونکہ یونین کونسلوں کی بے عملی میں سرکاری مشینری کا زیادہ ہاتھ ہے۔

ای پیپر دی نیشن