ہم رعایا سے شہری کب بنیں گے؟

پاکستان کے عوام رعایا سے شہری بننے کا سفر آخرکب طے کریں گے۔ رعایا پر حکومت کی جاتی ہے جبکہ شہری بنیادی حقوق کا استحقاق رکھتے ہیں جس میں جان کا تحفظ اہم ترین ہے۔ جس معاشرے میں انسانی جان بہت ارزاں ہو کیا وہ جدید اور مہذب معاشرہ کہلانے کا حق دار ہے؟ مہذب جمہوری معاشرے میں حکمرانوں کو حکمرانی کا حق شہری دیتا اور اس کے عوض وہ حاکم سے اس کے اقتدار سے کسی حصے کا طلبگار نہیں ہوتا بس اپنے لئے امن سے جینے کا حق چاہتا ہے اورجو حکومت یہ حق اسے نہیں دے سکتی اس کو عوام دوست حکومت کہلانے کا کوئی حق نہیں سفر انسان کی ایک بہت بڑی ضروت ہے جس کے لئے محفوظ راستے اور مناسب سہولتیں مہیا کرنا حکومتوں کا فرض ہے مگر اکیسویں صدی میں بھی پاکستان کے مختلف علاقے اس بنیادی سہولت سے محروم ہیں ایک طرف تو اربوں کھربوں کے موٹروے بن رہے ہیں لیکن دوسری طرف دریائے راوی پر ضلع ننکانہ صاحب کو سیدوالا کے مقام پر ضلع اوکاڑہ کو ملانے والا پل گزشتہ 16سالوں سے زیرتعمیر ہے۔ پل نہ ہونے کی وجہ سے لوگ دریا پار کرنے کے لئے مقامی طور پر تیار کی گئی کشتی میں سفر کرتے ہیں جسے مقامی زبان میں بیڑہ کہتے ہیں اس کشتی میں انسانوں کے ساتھ ساتھ، گاڑیاں، موٹر سائیکل، جانور، اجناس اور دیگر مال و اسباب بھی دریا کے دونوں طرف پہنچایا جاتا ہے اکثر اوورلوڈنگ کی وجہ سے یہ بیڑہ حادثے کا شکار ہوتارہتاہے جس سے قیمتی انسانی جانیں اور لوگوں کا مال و اسباب دریا برد ہوجاتا ہے۔ گزشتہ دنوں بھی اسی طرح کا ایک خوفناک حادثہ پیش آیا جس میں سید والا اوں گاوں سے یہ بیڑہ سو سے زائد افراد بشمول بچوں اور خواتین، مویشی، درجنوں موٹرسا ئیکلوں اور دیگر مال و اسباب کے ساتھ دریا پار کرتے ہوئے گنجائش سے زیادہ وزن کی وجہ سے بیچ دریا میں الٹ گیا۔ جس سے انسانوں سمیت ہر چیز دریا برد ہو گئی انسانوں کو تو مقامی افراد نے بچا لیا اورکچھ خود تیر کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے لیکن ان کا قیمیتی اثاثہ اور مال مویشی دریا کی نذر ہو گئے اور یہ کوئی پہلا حادثہ نہیں ہے اور اب تک اس جیسے کئی حادثوں میں درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ حالیہ حادثے میں ایک بچی کی ہلاکت رپورٹ ہوئی ہے کیونکہ امدادی کاروئیاں بہت دیر سے شرو ع ہوئیں۔ مقامی انتظامیہ نے اس کا فوری حل یہ نکالا کہ کشتی کے مالک کو گرفتار کر کے کشتی سروس ہی بند کردی گئی یعنی بجائے اس کہ کہ اسے ریگولیٹ کرتے اور کشتی کو گنجائش کے مطابق چلاتے عوام سے یہ سفری سہولت بھی چھین لی گئی۔ اب سیدوالا کے مکینوں کو دریا پار آنے کے لئے میلوں لمبا چکر کاٹنا پرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ 1999 میں جس پل کی بنیاد موجودہ وزیر اعلی شہباز شریف نے رکھی تھی وہ آج تک مکمل کیوں نہ ہو سکا؟ اس علاقے کے عوام کا بنیادی حق کب تک سیاست کی نذر ہوتارہے گا؟ ہر حکومت اورسیاسی لیڈرنے انتخابات کے موقع پر اس پل کی تعمیر کے حوالے سے سیاسی بیان بازی تو کی لیکن اس کی تعمیر کے لئے کوئی مناسب قدم نہ اٹھایا گیا جس کا نتیجہ آئے دن حادثات کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس پل کی تعمیر میں تاخیر سیاسی وجوہات کے ساتھ ساتھ ڈیزائن میں خرابی، فنڈز کی عدم فراہمی ، خردبرد ہو یا کوئی اور وجہ لیکن اس کا خمیازہ عوام بھگتتے ہیں۔ اس کا اندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کوروزانہ کے کام کاج کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے جان جوکھوں میں ڈالنی پڑتی ہو۔ آخر اس طرح کے منصوبے سیاسی مصلحتوں کا شکار کیوں ہو جاتے ہیں۔ وزیراعلی پنجاب بڑے بڑے منصوبوں کی بروقت تعمیر کی شہرت رکھتے ہیں لیکن اس پل کی تعمیرسولہ سالوں سے کیوں کٹھائی میں پڑی ہے۔ اس پر لگی افتتاعی تختی پر آج بھی شہباز شریف کا نام کنندہ ہے لیکن 3.5کلو میٹر کا یہ پل آج بھی ان کی توجہ کا منتظر ہے جبکہ لاہور، راولپنڈی اسلام آباد اور ملتان کے میٹرو بس کے میلوں لمبے ٹریک ریکارڈ مدت میں مکمل ہو چکے ہیں۔ کیا ایک عوامی فلاح و بہبود کے اس اہم منصوبے سے اس طرح کی چشم پوشی گڈ گورنس کے دعووں کی نفی نہیں کرتی ۔ جہاں ایک طرف ایک شامی مہاجر بچے الان کردی کی لاش نے عالمی ضمیر کو جنجھوڑا اور یوروپ اورامریکہ کو مہاجروں کی پالیسی کو تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔ ایسے میں ہمیں اور کتنی لاشیں گرنے کا انتظار کرنا ہو گا تا کہ عوامی اہمیت کا یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔ امیدکرتے ہیں کہ سید والا کے مقام پرہونے والا کشتی الٹنے کا یہ آخر ی حادثہ ہو گا اور خادم اعلی اس پل کی بروقت تکمیل کو اپنے باقی منصوبوں کی طرح یقینی بنایں گے تاکہ اس علاقے کے عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔ جناب خادم اعلی کا اقبال بلند ہو۔

ای پیپر دی نیشن