مولانا روم ؒ حکایت بیان فرماتے ہیں :ایک شخص بڑا عبادت شعار ، نیک اور متقی تھا،شیطان ایسے نیک طینت لوگوں کو ہمیشہ اپنے نشانے پر رکھتا ہے۔ یہ نیک مرد بھی ابلیس کی نظروں میں کھٹک رہا تھا ۔ ایک رات یہ شخص عبادت میں مصروف تھا اور اللہ اللہ کر رہا تھا کہ شیطان نے اپنا سب سے کا رگر ہتھیار (وسوسہ) اس پر آزمایا ۔ اس نے اس شخص کے دل میں وسوسہ ڈالنا شروع کیا ۔اور بولا:اے (بھولے) انسان تو کتنے اعتماد سے اللہ اللہ کہتا ہے ۔ کیا تو نے اس پکار کے جواب میں ،اللہ رب العزت کی طرف سے ایک مرتبہ بھی لبیک کی آواز سنی ۔ کیا تجھے کبھی تیری پکار کا جواب ملا۔بارگاہ الہٰی سے تو ایک بھی جواب نہیں آرہا توکتنی مرتبہ شدت واستقامت سے اللہ اللہ کا ورد کرتا رہے گا۔ اللہ کے نام کے ورد سے شیطان کو بڑی اذیت ہوتی ہے ۔جب اللہ کا کوئی بندہ اس کا نام جپنے لگتا ہے تو شیطان کے حواس گم ہونے لگتے ہیں۔ روح کوپاک کرنے کا سب سے خاص الخاص طریقہ جو بڑے بڑے صالحین نے اختیار کے اہے ۔وہ یہ ہے کہ اسے ذکر الہٰی سے معمور کرتے جائو گندگی اور ناپاکی خود ہی بھاگ جائیگی اور انسان کی روح پاک ،صاف،خوش وخرم اورشاداب وآباد ہوجائیگی۔شیطان نے جب اس نیک دل بندے کے دل میں وسوسہ ڈالا توا س نے ورد چھوڑ دیا۔ اور دل شکستہ ہوکر بستر پر دراز ہوگیا۔ رات حضرت خضرعلیہ السلام اسکے خواب میں تشریف لے آئے اور شخص نے دیکھا کہ وہ حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ ایک سبزہ زار میں ہے۔آپ نے اس سے سوال کیا اے نیک مرد تو خاموش کیوں ہوگیاہے اور کیوں اس افسردہ ومایوس حالت میں لیٹا ہوا ہے۔ اس شخص نے گزارش کی ۔ میں ورد کرتا ہوں تو جواب نہیں ملتا۔میں لبیک کہتا ہوں تو کوئی آواز پلٹ کر میرے کانوں میں نہیں آتی۔ شایدبارگاہ رب العزت تک میری آواز پہنچتی ہی نہیں ۔میں اس بات سے خوفزدہ ہوگیاہوں اور مایوس بھی کہ شاید مجھے راندئہ درگاہ کردیا گیا ہے اورمیں مردود ہوچکاہوں ۔حضرت خضر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ۔مجھے اللہ رب العزت نے تمھارے پاس آنے کا حکم دیا ہے ۔ اور فرمایا ہے کہ جائو اور میرے اس نیک خصلت بندے سے کہو، اے میرے بندے تیرا یہ مجھے پکارنا ، تیری زبان کا وردِ اللہ اللہ سے تر ہو جانا، اور ہماری یا د میں مشغول ہوکر دنیا کے لاکھ جھمیلوں سے بچے رہنا ہی ہماری لبیک ہے۔ وہ کیف وسرور جو تجھے میسر ہے یہی ہمارا قاصد ہے ۔ کیامیں نے تجھے اپنے کام میں نہیں لگا رکھا؟ تیری دل کی یہ تڑپ اور تیری محبت کی وارفتگی ہماری ہی کشش کے باعث ہے، کسی کو عبادت کی توفیق عطا ہوجانا ہی اسکی عبادت کی قبولیت کی دلیل ہوتی ہے۔ دعا مانگنے والے کا پکارنا ہی اللہ رب العزت کی طرف سے لبیک بن جاتا ہے ۔ جس سے اللہ ناراض ہوجائے اسے اپنی عبادت کی توفیق ہی نہیں دیتا ۔