کراچی(کلچرل رپورٹر)چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ہی دہشت گردی اور اقتصادی خلفشار کے خلاف لڑتا رہا ہے اور ہم اب بھی اسی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ وہ ہفتہ کے روز بیچ لگژری ہوٹل میں کراچی لٹریچر فیسٹیول کے ایک سیشن سے خطاب کررہے تھے۔”پاکستان ایک کمزور یا ثابت قدم ریاست“ کے عنوان سے سیشن میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے دانشوروں‘ مزدوروں اور عام آدمی کی ثابت قدمی کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ریاست ان طبقات کو خاموش کرناچاہتی ہے تاکہ وہ کوئی سوال نہ کرسکیں یا ریاست کی ناانصافی کے خلاف آواز نہ اٹھائیں اور خاموش تماشائی بن جائیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت دانستہ نظریہ پاکستان کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہے اور اس نے قائداعظم کی ان تقاریر کو نظرانداز کردیا ہے جو پاکستان کو ایک گیریژن اسٹیٹ کے طور پر نہیں بلکہ ایک ترقی پسند ریاست کے طور پر اجاگر کرتی ہیں۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول میں آج دوسرے روز ہزاروں افراد نے مختلف سیشنز میں شرکت کی۔ ادیبوں‘ شاعروں‘ دانشوروں‘ ماہرین تعلیم‘ فنکاروں اور عام لوگوں نے دن بھر مختلف سیشنز میں علمی اور ادبی گفتگو میں شرکت کی اور مختلف سوالوں کے جواب دیئے۔ اداکارہ شبنم لٹریچر فیسٹیول میں لوگوں کی توجہ کا محور رہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے پاکستان میں جن فلموں میں کام کیا وہ ان کی زندگی کا قیمتی ترین اثاثہ ہے‘ وہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتی ہیں اور اب بھی اگر انہیں پاکستانی فلموں میں کام کرنے کی پیشکش کی گئی تو وہ اسے دل و جان سے قبول کریںگی۔ انہوں نے کہا کہ آج کا پاکستان بہت مختلف ہے۔ قدم قدم پر اس کی ترقی نظرآتی ہے اور یہ دیکھ کر انہیں بہت خوشی ہوتی ہے۔ دریں اثناء6ویں یو بی ایل لٹریری ایکسیلنس ایوارڈ کی تقریب میں ممتاز مزاح نگار مشتاق یوسفی کے ہاتھوں ایوارڈ دیئے گئے۔ گزشتہ روز گیارہ کتابوں کی رونمائی ہوئی۔ ان میں ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض کی ”تم کبیر اور قلعہ فراموشی“ اکبر نقوی کی ''Sadequain and the Culture of Enlihgtenment'' میجر جنرل(ر) راﺅ فرمان علی کی ''How Pakistan Got Devided'' عمر شاہد حامد کی ''The party Worker'' سدھیندرا کلکرنی کی ''August Voices'' ناصرہ زبیری کی ”تیسرا قدم“ حسن عزیز کی ”کلام عارفان“ اور بعض دیگر تصانیف شامل تھیں۔ مشاعرے میں کشور ناہید‘ا نور شعور‘ فہمیدہ ریاض‘ پیرزادہ قاسم‘ امداد حسینی‘ افضل احمد سید‘ نسیم سید‘ حمیرا رحمان‘ شاہدہ حسن‘ فاطمہ حسن‘ خواجہ رضی حیدر‘ تنویر انجم‘ عقیل عباس جعفری‘ حارث خلیق‘ انعام ندیم‘ علی اکبر ناطق‘ پیرزادہ سلمان‘ کاشف غائر اور بشریٰ اقبال ملک نے اپنا کلام سنایا۔
رضا ربانی