کوئی نیا پن پیدا کرنے کے چکر میں ہم نے سوچا کہ آج قارئین کی خدمت میں ایک ایسا کالم پیش کریں جس کے ساتھ دوسرا کالم بھی ہو، جو پہلے کالم سے جدا ہو بھی اور نہیں بھی !
آج کے دور میں تاجر حضرات اپنی مصنوعات کے ساتھ کبھی دس پر ایک تو کبھی کبھی ایک پر ایک بھی مفت دے دیتے ہیں۔اس طرح پروڈکٹ کی قیمت کم بھی نہیں کرنی پڑتی اور صارف کو سستی بھی مل جاتی ہے۔اب ہمارے کالم کی کوئی قیمت تو ہے نہیں لیکن پھر بھی ہم ایک پر ایک مفت دے رہے ہیں اور یہ قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ وہ کس کالم کو مفت سمجھتے ہیں ۔ ہمار ا مشورہ ہے کہ جو پسند نہ آئے اور بھرتی کا لگے اسے مفت تصور کیا جائے۔ دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ نسبتاً چھوٹے کالم کو مفت سمجھا جائے یا پھر اسے کالم کی ’پخ‘!
ہماری ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ کوئی بات مبہم نہ رہ جائے اور کسی ایک بھی قار ی کے ذہن پر بوجھ نہ بنے۔ تو ہم ’پخ‘ کے بارے میں یہ بتادیں کہ پخ اس چھوٹے گدھے کو کہتے ہیں جو گدھا گاڑی میں اصلی اور بڑے گدھے کے ساتھ شاید اس لیے دوڑایا جاتا ہے کہ زندگی کے سفر کے لیے کچھ سیکھ لے۔اس سیکھنے کے دور کو آپ انٹر ن شپ (Internship) بھی کہہ سکتے ہیں۔کالم کے اس عنوان کی وجہ تسمیہ بیان کرنے کے بعد کالم کے موضوع کی طرف آتے ہیں جو ہمیں ایک کرمفرما کی وجہ سے ہاتھ آیا۔ہوا یہ کہ ہم پرویز مشرف کے وکیل کے اس بیان پر اظہار خیال کر رہے تھے کہ ممکنہ حملے کے پیش نظر ان کا موکل عدالت نہیں جائے گا۔چند دوستوں کا خیال تھا کہ یہ بہانہ کر رہا ہے لیکن ایک صاحب نے ذرا سخت مووقف اختیار کرتے ہوئے کہا’ مجھے تو لگتا ہے عدالت پر یہ حملہ اس ہی لیے کیا گیا تھا کہ استثنا لی جائے‘۔اپنے اس خیال کی تائید میں یہ بھی یاد دلایا کہ پہلے بھی پیشی پر جانے کے لیے نکلنے سے پہلے ہی دھماکہ خیز مواد راستے میں پڑا ہوا ملتا رہا ہے۔
’’ حسرت اس ’ مواد ‘ پر جو بن پھٹے پکڑا گیا‘‘
ہم نے یاد دلایا’ یار ایسی بات نہیں ایک بار دوران صدارت بھی حملہ ہوچکا ہے‘۔۔اس پر وہ برجستہ بولے اور مرے دوسرے تھے۔۔اس کی دیکھا دیکھی ایک حملہ اس کے وزیر اعظم نے بھی خود پر کروایااس میں بھی مرے دوسرے وہ نہیں۔پھر تو یہ رسم چل پڑی تھی اور سرحد کے ایک ایم این اے امیر مقام سے ہوتے ہوئے پنڈی کے انتخابات میں ایک امیدوار شیخ رشید تک پہنچی تھی۔ان سارے حملوں میں یہ قدر مشترک تھی کہ مرنے والے سپاہی تھے ڈرائیور تھے یا پارٹی ورکر لیکن اصل ٹارگٹس کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ہاں عوامی امیدوار کے گھٹنوں پر خراشیں بتا رہی تھیں کہ ۔ع
ہم نے گرہ لگائی۔’’ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘‘۔ہمارے دوست ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ یہ سازشی ذہن کی علامت ہے اس پر ایک دوست جو مشرف کے فین ہیں،طنزیہ لہجے میں بولے’’Conspiracy Sydrome‘‘۔اس پر ہمیں تصیح کرنی پڑی ’’ بھائی یہ سنڈروم کئی علامات کا مجموعہ ہو تا ہے جو کسی مرض کی نشاندہی کرتا ہے۔۔ایک آدھ علامت ہو تو اسے سمپٹم (Symptom) کہتے ہیں۔اور یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ سنڈروم کے ساتھ علامت کا نام نہیں لکھا جاتا۔اس لیے کانسپریسی سنڈروم غلط ہو گا۔سنڈروم عموماً مرض اور اس کی متعدد علامات کو دریافت کرنے و الے کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔جیسے زولنجر ایلی سن سنڈروم ، ڈائون سنڈروم یا ولیمز سنڈروم۔ ہو سکتا ہے آپ مشرف فوبیا( مشرف کا خوف) کہنا چاہ رہے ہوں‘‘۔۔اس پر ہمارے وہ دوست جو اسے سازش ثابت کرنا چاہ رہے تھے بولے ہمیں کیوں ہوگا خوف۔ خوفزدہ تو وہ ہے جو عدالت میں آنے سے گریزاں ہے۔اس پر قہقہہ پڑا اور ہمیں بات برابر کرنے کے لیے کہنا پڑا ’’ بھائی مشرف میں ایک علامت نہیں بلکہ کئی علامات ہیں۔مثلاً سازشی عنصر تو ہے ہی۔اس کے علاوہ طالبان فوبیا بھی ہے۔خود فریبی یا یو فوریا کے ساتھ ڈیلیوڑن بھی پایا جاتا ہے کہ خود کو عقلمند ترین اور بہادر بھی سمجھتا ہے۔ان تمام علامات کے ساتھ ہم اس مرض کو مشرف سے منسوب کرتے ہوئے اسے مشرف سنڈروم کا نام دیتے ہیں۔اس پر خوب واہ واہ ہوئی اور کانپریسی سنڈروم دم توڑ گیا۔ایک صاحب نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس سنڈروم کی وجہ سے مشرف کے وکیل کا کہنا ہے’’ کیونکہ عدالت پر حملے کا خدشہ ہے اس لیے وہ اپنے موکل کو عدالت میں نہیں لائیں گے۔‘‘اس پر سوال پیدا ہوا کہ کیا وہ ہسپتال میں محفوظ ہیں۔ مشرف کے فین نے کہا ہاں کیونکہ انہیںبقول وزارت داخلہ ہسپتال سے عدالت تک راستے میں یا عدالت میں داخل ہوتے ہوئے یا عدالت میں نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔اور یہ تو بین الاقوامی قانون ہے کہ ہسپتال پر حملہ نہیں کیا جاتا۔۔
ان کے اس بیان سے ہمیں مندرجہ ذ یل مفت کالم یا کالم کی پخ پیش کرنے کی تحریک ہوئی۔
محفوظ ہسپتال
دنیا بھر میں ایک معاہدے کے تحت یہ طے پایا گیا کہ جنگ اور امن دونوں صورتوں میں ہسپتال، ایمبیولنس اور مریضوں کو محفوظ رکھا جائے گا۔اس کے لیے ایک نشان ریڈ کراس
( + ) کی شکل میں تشکیل پایا لیکن بعدمیں مسلمانوں کی خواہش کے پیش نظر اس کی بجائے ریڈ کریسنٹ یعنی ہلال احمر کے استعمال کی بھی سہولت دے دی گئی۔جنگوں میں دونوں فریقین اس عہد کی پاسداری کرتے تھے۔ اور فریقین نہ تو ہسپتال یا ایمبولنس کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرتے نہ ہی ان پر حملہ آور ہوتے۔لیکن دوسری جنگ عظیم میں انصاف ، سچائی اور مورل ویلیوز کے دعویدار امریکی اور برطانوی فوجوں نے نہ صرف ہسپتالوں کو فوجی بیرکوں کے طور پر استعمال کیا بلکہ ایمبیولننسس کو بھی فوجی سامان کی ترسیل کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔اس خلاف ورزی نے ہٹلر کو چرا غ پا کردیا اور اس نے ہسپتالوں اور ایمبولنسوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا۔ تو لگے دہائی دینے کہ یہ ظالم ہے بہر حال اچھی قوموں کو چاہیے کہ وہ ہسپتال اور ایمبیولنس کو جائز کام کے لیے استعمال کریں۔ہٹے کٹے اشخاص کو ہسپتال میں داخلہ دے کر حقیقی مریضوں کی جان کو خطرے میں نہ ڈالیں۔۔ایمبیولنسوں کو اسلحہ اور مفرور مجرموں کی ترسیل کے لیے استعمال نہ کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی ہٹلر غصے میں آکر ریڈ کراس اور ریڈ کریسینٹ کو نا قابل اعتبار سمجھ لے۔