گذشتہ شام مختلف ٹی وی چینلز کی سرفنگ کر تے ایک چینل پریہ خبر دیکھنے میں آئی کہ’’ بلاول بھٹو نے دہشتگردوں کو پیدا کرنے کا زمہ دار امریکہ کو ٹہرادیا ‘‘۔ خبردیکھ کر میں حیران ہوا کہ ٹی وی چینل نے یہ خبر تو چلا دی کہ بلاول نے دہشتگردی کا ماسٹر مائنڈ امریکہ کو قرار دے دیاہے مگر خبر میں بلاول کی طر ف سے کہی گئی اُس بات کا زکر نہیں کیا جس میں انہوں نے حقانی نیٹ ورک کی پاکستان میں موجودگی اور اُس سے ہتھیار رکھوانے کی بات کی۔یہ خبر پرنٹ میڈیا میں بلاول بھٹو زرداری کے گذشتہ دِنو ں واشنگٹن میں ووڈرو ولسن تھنک ٹینک سے خطاب کے پورے سیاق وسباق کے مطابق شائع ہوئی تھی جس میں یوں تو بلاول بھٹو نے دیگر بہت سی باتیں کیں جنہیں درست کہا جا سکتا ہے مگر پاک افغان تعلقا ت کا زکر کرتے ہوئے وہ جو کچھ کہہ گئے اسے درست بالکل قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اُن کے اِس کہے سے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستانی کاز کو نقصان پہنچانے کا پہلو صاف نظر آرہا ہے بلکہ اِس سے امریکی تھنک ٹینک خصوصاً بھارتی لابی کے اُس پروپیگنڈے کو تقویت بھی مل سکتی ہے جس کا مقصد پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کی موجودگی ثابت کر کہ دُنیا کی نظروں میں پاکستان کو دہشتگردوں کی محفوظ پناہ قرار دلِواناہے ۔اُنہیں یہ زہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ اِ س وقت پاکستان کی اُس سیاسی پارٹی کے چیئرمین ہیں جو نہ صرف تین بار حکومت میں آئی بلکہ اِسی پارٹی کو پاکستا ن کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے اوریہ ایٹمی قوت ہی ہے جو اُس ملک کو جہاں یہ خطاب کررہے تھے کی آنکھوں کا کانٹا بناہوا ہے اور یہی وجہ بھی ہے کہ امریکہ پاکستان کی تباہی کا ماسٹر پلان تیار کر کہ اِس کے سرحدوں کے بالکل اُوپر افغانستان میں تیار بیٹھا ہوا ہے ۔
وو ڈ رو لسن تھنک ٹینک سے پچھلے ہفتے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کو بہرصورت ختم کیاجائے اوراِن سے ہتھیار رکھوائے جائیں ۔یہ باتیں انہوں نے پاکستان او رافغانستان کے درمیان سرحدوں پر عسکریت پسندوں کے داخل ہونے کے الزامات کی تحقیقا ت کیلئے بین القوامی تعاون سے ایک قابل ِ قبول طریقہ ء کار اختیار کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہیں ۔ تاہم اپنی اِسی گفتگو کے دوران بلا ول بھٹو زرداری نے انتہاپسندی کا زمہ دار امریکہ کو بھی ٹہراتے ہوئے کہا کہ عسکریت پسند اور جہادی پیدا کرنے کا زمہ دار خود امریکہ ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری کی اگردہشتگردوں کے حوالے سے امریکی کردار پر کی جانے والی تنقید کو دیکھا جائے تو یہ تنقید گو کہ حقائق پر مبنی ہے بلکہ دہشتگردی کی جنگ میںپاکستانی موقف کی مو ثر انداز سے ترجمانی بھی کررہی ہیں مگر اِس کا جو فائدہ ہونا چاہیے تھا اُس فائدے کو وہ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کی موجود گی کو ظاہر کر کہ نقصان میں تبدیل کر بیٹھے ہیں جس کا شائد انہیں ادراک ہو نہ ہومگر ہم تو یہی کہیں گے کہ نادانستگی یا بے خیالی جو بھی ہو میں یقینا وہ ملکی مفاد کیخلاف بول گئے ہیں، اِس لئے ہمارے لکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو جنہیں ہو سکتا ہے کل کو ملک کی باگ دوڑ سمبھالنی پڑ ہی جائے کو ا س قسم کے مباحثوں میں شرکت کرنے سے پہلے پوری تیاری کر لینا چاہیے کیونکہ کسی بھی سیاستدان کا موجودہ دور میں فارن میڈ یا تو دُور کی بات ملکی میڈیا کا بھی سامنا کرنا ہر گز آسان کام نہیں رہا ۔صحافی کسی بھی نوعیت کا کوئی بھی سوال جو اُن کے نزدیک ایک سوال سے زیادہ اہمیت و حیثیت نہیں رکھتا بعض دفعہ یوں ہی مزہ لینے کیلئے بھی کر دیتے ہیں مگردیکھنے میں آیا ہے کہ صحافی کایوں ہی مزہ لینے کی نیت سے کیا گیا ایک ہی سوال ، خبر یا سٹوری بعض اوقات سیاستدانوں کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کا اگر زریعہ ثابت ہوئی ہے تو دوسری طرف ایسا ہی کوئی سوال ، خبر یا سٹوری اُنہیں صدارتی محلوں سے بوریا بستر گول کرنے کے علاوہ اُن کے پورے سیاسی کیرئیر کا تیہ پانچہ کرنے کا سبب بھی بنی ہے۔اس سلسلے میں امریکہ کے مشہور ِزمامہ ’’واٹر گیٹ سکینڈل‘‘ کی مثال دی جاسکتی ہے جس کی زد میں آکر سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن کو وائٹ ہاؤس چھوڑنا پڑاتھا ۔صرف یہی نہیں بلکہ اس سلسلے میں پاکستان میں بھی سابق وزیر اعظم نواز شریف کی مثال ابھی ترو تازہ ہے جن کی وزیراعظم ہاؤس سے زبردستی بیدخلی کی بنیادی وجہ ایک صحافی ہی کی پانامہ لیکس کے نام سے چلائی گئی سٹوری بنی۔
پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کی موجودگی کے امریکی الزامات کا جہاں تک تعلق ہے تو اِن الزامات کا اصل مقصد افغانستان میں امریکہ کی فوجی ناکامیوں کا ملبہ پاکستا ن پر ڈالنا ہے۔ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک تو کیا ، د یگر تمام دہشتگرد تنظیموں کے نیٹ ورکس کا بھی خاتمہ کرتے ہوئے اپنی پاک سرزمین کو دہشتگردی کی لعنت سے پاک کر لیاہے مگر اِس کے باوجود امر یکی ،حقانی نیٹ ورک کے چلے ہوئے کارتوس سے اِسے حراساں کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیںجس سے انہیں کچھ حاصل وصول ہونے والا نہیں،اُنہیں یہ حقیقت زہن نشین رکھنی چاہیے کہ موجودہ قومی قیاد ت ماضی کی اُس قیاد ت سے بالکل مختلف اور نڈر ہے جسے وہ فون کال کے زریعے ڈرا دھمکا کر اپنا اُلو سیدھا کرنے میں اُس وقت تو کامیاب ہو گئے تھے مگر اب نہیں ہو سکتے۔ بلاول بھٹو نے اپنے خطاب میں عسکریت پسندوں کی دونوں ملکوں میں کاروائیوں کے الزامات کی بین القوامی طور پر تحقیقات کے لئے عالمی فیکٹس فائندنگ کمیٹی کے قیام کی تجویز بھی پیش کی ہے جو کسی حد تک قابل ِ قبول قرار دی جاسکتی ہے مگر اِس کابھی کوئی فائدہ ہوتا دکھائی نہیںدے رہا ،اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر متعلقہ اداروں ،حکومتوں کو اِن الزامات کی حقیقت کا پتہ ہے کہ کون دہشتگردوں کو استعمال کر رہا ہے اورکون دہشتگردی کا شکار ہورہا ہے ۔پاکستان ’’ بارڈر مینجمنٹ اینڈ کنڑول پالیسی‘‘ کے تحت اپنے طور پر اپنی حدود کے اند 26 سو کلو میٹر لمبی پاک افغان بارڈر کو محفوظ بنانے کی غرض سے اب تک آٹھ سوکلو میٹر کے حصے پر’ ’ باڑ‘‘ نصب کر چکاہے جبکہ دوسری طرف افغانستان نے ایسا کرنے کی بجائے اُلٹا پاکستان کو اِن اقدامات کا مزہ چکھانے کی غرض سے کئی مرتبہ پاکستانی فوجی چوکیوں پر حملہ کر کہ ہمارے فوجیوں کو شہیدبھی کیا ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ خطے میں امن کے قیام میں کون سنجیدہ اور کون بدنیت ہے ۔یہاںیہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ افغانستان جو کچھ بھی کر رہا یہ سب بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را ‘‘کے’’ حکم ‘‘ پر کر رہا ہے ۔اگراِسی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کی موجودگی کا جو راگ امریکی الاپ رہے ہیں اِس کے پیچھے بھی بھارتی لابی کی کانا پھُوسی ہی کا وہ زہر ہے جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کانوں میں تواتر سے گھولا جارہاہے ، اور جسے بلاول کی باتیں تقویت دے گئی ہیں۔