کم لوگ ہیں جو سچائی کو اس وقت منظر عام پر لاتے ہیں جب سامنے کوئی اپنا ہو یا وہ چڑھتا سورج جس کی وہ پوجا کرتے ہوں یا خوشامد۔ لوگ مصلحتاً جھوٹ زیادہ بولتے ہیں اور سچ کم۔ پھر کئی سیاسی و سماجی یا بیوروکریٹس یا ٹیکنو کریٹس ساری جوانی اور توانائی ایک سسٹم کے ساتھ گزارتے ہیں اور اُف تک نہیں کرتے مگر ریٹائرمنٹ کے بعد یا نو سو چوہے مکمل ہو جانے کے بعد انہیں سچ بولنا یاد آجاتا ہے۔ یہ کیسی بات ہے اور کیسا سچ؟ کم و بیش دو سال قبل کی بات ہے کہ ایک وفاقی وزیر مملکت کے بطور خاص کہنے پر ہم ایک صوبائی فاؤنڈیشن کے چئیرمین کو ملنے گئے، یہ صاحب ممبر صوبائی اسمبلی بھی ہیں، میرا بھی خیال تھا کہ ان سے گفت و شنید کے دوران کہنے سُننے کیلئے بہت کچھ ملے گا۔ یہ صاحب ابھی چئیرمین ہی ہیں تاہم وہ وزیر مملکت جن کے کہنے پر ہم گئے اب وہ پورے وفاقی وزیر ہیں۔ موصوف نے حکومتی حوالوں یا پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے حوالے سے تو کوئی قابل ذکر بات نہ کی مگر دوران گفتگو میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کی محنتوں، دیانتداریوں اور سیاسی ویژن پر بے شمار باتیں کیں۔ جو آج بھی مجھے یاد ہیں۔ میاں شہباز شریف کے حوالے سے تو انہوں نے صاف کہا کہ، ان جیسا محنتی اور دیانتدار شخص میں نے سیاسی دنیا میں دیکھا ہی نہیں، بلکہ وہ تو قسم دینے کی حد تک تیار لگے۔ حالانکہ یہ 2008 تا 2013 ق لیگ کے ممبر صوبائی اسمبلی تھے۔ الیکشن 2008 میں انہوں نے راولپنڈی کے حلقہ صوبائی اسمبلی نمبر 5 (راولپنڈی v ) سے مد مقابل چوہدری نثار علی خان کو شکست سے دوچار کیا تھا حالانکہ چوہدری نثار نے قومی اسمبلی میں اسی حلقہ میں کامیابی حاصل کی تھی۔ ایم پی اے قمرالاسلام راجہ (چئیرمین پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن) 2013ء میں مسلم لیگ ن کی جانب سے ایم پی اے بنے۔ بہرحال اس راجہ کو چوہدری نثار علی خان کا بہت بڑا فین پایا۔اسی طرح مری سے معروف سیاسی شخصیت راجہ اشفاق سرور(صوبائی وزیر) سے بھی تقریباً ڈیڑھ سال قبل یکے بعد دیگرے کافی ملاقاتیں رہیں، ان کے منہ سے جن دو سیاسی رہنماؤں کی بھر پور تعریفیں سنیں، اور خوب سنیں وہ میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان ہیں۔ اسی طرح راجہ اشفاق سرور بھی قمرالاسلام راجہ کی طرح چوہدری صاحب کے بڑے فین نکلے۔ مجھے نہیں معلوم اس وقت دونوں کا نثار دوستی میں پیار کا معیار کیا ہے کیا نہیں، اور نہ میں نے کالم لکھنے سے قبل ان دنوں کی پرستاری کا ازسرنوجائزہ لیا ہے ، اُمید ہے عالم پسندیدگی اب بھی وہی ہوگا کیونکہ دونوں پرستار وضعدار سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں ایرے غیروں میں نہیں کہ، چوہدری نثار اگر ضرورت سے زیادہ سچ بولنے لگیں تو وہ پرستاری یا یاری سے ہاتھ کھینچ لیں ، باقی سیاست تو پھر سیاست ہے نا کون جانے کب کیا ہو جائے! اس موقع پر شکیل بدایونی کا ایک شعر یاد آگیا :
کانٹوں سے گزر جاتا ہوں دامن کو بچا کر
پھولوں کی سیاست سے میں بیگانہ نہیں ہوں
اسی طرح کسی نے سیاست کے حوالے سے یہ بھی کیا خوب کہا کہ:
سمجھنے ہی نہیں دیتی سیاست ہم کو سچائی
کبھی چہرہ نہیں ملتا کبھی درپن نہیں ملتا
سچی بات یہ ہے ان دو شخصیات سے ملاقات کے بعد ہمارا چوہدری نثار کے حوالے سے زاویہ نظر ہی بدل گیا جبکہ اس سے قبل ہم تو انہیں صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ یا جرنیلوں کا بھائی یا پھر خواہ مخواہ پی پی پی مخالف ہی سمجھتے۔
اچھی ساکھ رکھنے والے ایک تجزیہ نگار کی کتاب ’’ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ بھی پچھلے دنوں ہاتھ لگی تو انہوں نے چوہدری نثار کے دو واقعات کا بطور خاص تذکرہ کیا۔ ایک واقعہ تو اس وقت کا تھا جب آتش جوان تھا اور ضیائی دورحکومت میں وہ وزیر تھے، کہ ایک موقع پر صدر جنرل ضیا الحق کی موجودگی میں صدر کی سیاسی مقبولیت پر تبادلہ خیال ہورہا تھا کہ، چوہدری نثار نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہہ دیا کہ، صدر صاحب آپ کی ’’مقبولیت‘‘ کا یہ عالم ہے کہ اگر آپ کے مقابلے میں اندرا گاندھی بھی یہاں الیکشن لڑے تو وہ جیت جائے گی۔ سیانے کہتے ہیں ضیا الحق کے سامنے اتنا کھرا سچ بولنا اتنا آسان کام نہیں تھا۔ ایسے ہی کچھ لوگ ماضی میں میاں نواز شریف سے نالاں تھے اور ان کی غیر موجودگی میں باتیں بھی بہت کرتے۔ ایک میٹنگ میں جب یہی بات میاں نواز شریف کے سامنے رکھی گئی تو جن کی وکالت چوہدری نثار نے کی وہ خود میاں صاحب کے سامنے مکر گئے۔ اس دھڑلے سے بات وہی کرسکتے تھے جو انہوں نے کی تاہم تاریخ گواہ ہے کہ جن کا مقدمہ لڑا گیا ان کے ہاں جرأت اظہار کا بہرحال فقدان تھا چہ جائیکہ وہ اپنی جگہ بڑے بڑے لیڈر ہیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ، ہمارا سیاستدان نظریہ ضرورت کو نظریہ پاکستان پر فوقیت دیتا ہے۔ ہمارے اداروں کے سربراہان اور پارلیمانی راجے اور مہاراجے اکیلے اکیلے بھی قوم کو رعایا اور اکٹھے بیٹھ جائیں تو بھی قوم کو عوام بھی نہیں گردانتے رعایا ہی تسلیم کرتے ہیں۔ آئین سازی کرنے کی صلاحیت اور آئین رکھنے کی سعادت کے باوجود آئین و قانون کے مطابق چلنا پسند نہیں کرتے۔ ہاں ، البتہ عوام کو اپنے اپنے استعمال کیلئے خوب استعمال کرلیتے ہیں، کوئی روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر اور کوئی نیا پاکستان اور کوئی سڑکوں اور گلیوں کے نام پر۔ اور عوام بھی ایسے اللہ لوک ہیں کہ، کبھی یہ نہیں کہتے کہ، یہ ممبران اسمبلی اسمبلیوں میں جانے اور دیگر امور نمٹانے کی تنخواہ قومی خزانے سے لیتے ہیں اور مینڈیٹ بھی قوم سے۔ اس قوم سے جسے یہ سب رعایا سمجھتے ہیں اور اس قومی خزانے سے جسے یہ باپ کا مال سمجھتے ہیں۔ دور کیوں جاتے ہیں ، ن لیگ سے پی پی پی اور پی ٹی آئی تک کو دیکھ لیں کہ انہوں نے حالیہ سینٹ انتخابات کے ٹکٹ کس کس کو دئے ہیں اور کون کون کب کب ان پارٹیوں میں آیا اور گیا؟ کیا کسی کو خیال آیا کہ قوم کیا کہے گی یا تبصرے کیا ہوں گے۔ کیونکہ ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ان پارٹیوں کے پیرول پر اپنے اپنے تبصرہ نگار دستیاب جو ہیں، اور رہی بات قوم کی ، تو قوم کو سبز باغ دکھانا سبھی کو خوب آتا ہے کوئی زرداری و میاں صاحبان ہوں یا عمران خان و ملا صاحبان سبھی سیاسی و سماجی و نفسیاتی کامیاب و کامران نباض ہیں۔ ہے کوئی رہبر و رہنما جو انسٹی ٹیوشن بن سکا یا پارٹی کو انسٹی ٹیوشن بنا سکا؟ رہی سہی سمجھ ان سینٹ الیکشن میں چشم بینا رکھنے والوں کو بخوبی آرہی ہے اور سب کی آرہی ہے !سینٹ الیکشن کے تناظر میں خلق خدا کہتی ہے کہ، ارب پتی اور کھرب پتی میدان میں آگئے ہیں اور تجوریوں کے منہ کھل گئے ہیں حالانکہ اہل سیاست اور اہل دانش اسے ایلڈرز ہاؤس کہتے ہیں،ہم نے اپنے کانوں سے کچھ دلبرداشتہ ن لیگ اراکین اسمبلی سے سنا ہے کہ ، کچھ ٹکٹ ہولڈرز کو درخواستیں طلب کرنے اور پارلیمنٹری بورڈ بننے سے قبل فائنل کیا جا چکا تھا۔ یقیناً یہی عالم دیگر پارٹیوں کا بھی ہوگا، اور آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ رہی بات جناب نثار کی تو وہ اس بیوقت یا بوقت راگنی کو آخر نتیجہ خیز کیوں نہیں بناتے؟ مانا کہ وہ بااصول ہیں لیکن دوران وزارت انہیں سب خامیاں تو اپوزیشن اور پیپلزپارٹی ہی میں نظر آتی تھیں۔ اگر طارق فاطمی اور راؤ تحسین بے قصور تھے تو اس وقت ’’پورا سچ‘‘ کیوں نہ بولا گیا ؟ کہتے تو اب بھی یہی ہیں کہ، ڈان لیکن کی ورنہ حقیقت بتادوں گا۔ اگر کوئی حقیقت ہے تو پھر بتا کیوں نہیں دیتے؟ سرکار فرماتے ہیں کہ عدالتوں کی بے حرمتی مسلسل ہے، گر ہے تو خود حرمت کی داغ بیل ڈال کیوں نہیں دیتے؟ ایک طرف حکومتی گھر ایک طرف سچ کا میکدہ۔۔ کس طرف جاؤں کیوں ہوتا نہیں فیصلہ؟ کل تک رانا ثناء اللہ نیچے سیاسی دفاع پر مامور تھے اور اوپر قبلہ چوہدری صاحب، اب بے چارے رانا صاحب کو چوہدری صاحب کے حسن بیان کا جواب بھی دینا پڑتا ہے۔ آخر یہ سب کب تک؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری یا عزا داری ہے؟
مانا کہ کچھ سیاستدان بے چارے ’’مظلوم‘‘ ہیں لیکن کوئی یہ بھی تو دیکھے کہ، اداروں میں چھڑی لڑائی یا عدالتوں کی مداخلت میں کیا آج کی حکومت کا کوئی قصور نہیں؟ کیا سیاستدانوں کی فلور کراسنگ ، لوٹاازم، منی لانڈرنگ، پارٹیوں پر وراثتی قبضوں، میمو گیٹس، اور شیخ مجیب الرحمٰن سے مماثلتیں، عدالتوں میں جھوٹ، سرے محل اور لندن فلیٹس جیسے دیگر سبھی معاملات دیکھ کر عوام کی طرح وضعدار سیاستدان اور باشعور عناصر اور ادارے بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیں؟ کیا عصر حاضر گلوبل ولج نہیں یا ہم اکیسویں صدی میں سانس نہیں لے رہے؟ کبھی وقت تھا کہ چوہدری نثار کسی یار کے کہنے پر رائے ونڈ میں سوئے ہوئے میاں نواز شریف کو جگا کر یار کی خواہش پر کسی مرضی کی خاتون کو سپیشل سیٹ کا ٹکٹ دلوا دیتے اور آج سینٹ کی ٹکٹوں کی تقسیم پر کوئی پوچھتا نہیں! آہ ، ہر وقت کا اپنا افسر ہے اور ہر رنگ کی اپنی چادر۔ بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر پارٹی اپنے اپنے چوہدری نثار کی قدر کرے ان کی خدمات بہرکیف ہوتی ہیں۔ یہ نثار اور جانثار ہی پارٹیوں کا حسن ہیں اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار، بگاڑ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ جانثار، آئین اور آئینہ دیکھتے رہیں گے تو جمہوریت کو استقلال ہے ورنہ ’’ثناخواں‘‘ بھی کہاں ملیں گے!!!