پشاور(بی بی سی ڈاٹ کام) جو بات قبائلی شاید اپنے سائے سے بھی کرتے ڈرتے تھے وہ انہوں نے بالآخر اسلام آباد کی سڑکوں پر ببانگ دہل کہہ دی۔ قومی پریس کلب کے باہر دس روز کے منفرد پرامن احتجاج نے پختونوں بالخصوص قبائلیوں کے لیے ایک نیا سیاسی راستہ کھول دیا ہے۔ یہ یقیناً ماضی کے بہادر، غیور اور جنگجو صفت قبائلی کہلوا کر استعمال کی گئی اس قوم کو بظاہر پہلی مرتبہ ایک زبان دے گیا۔ راؤ انوار قانون کی گرفت میں آتے ہیں یا نہیں لیکن ان کے مبینہ ماورائے عدالت اقدام قتل نے قبائلیوں خصوصا ان کے منظور احمد پشتین جیسے نوجوانوں کو بیدار کر دیا ہے۔ نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر شور ڈال کر اس احتجاج کی بنیاد رکھی اور بالآخر وزیر اعظم سے تحریری یقین دہانی حاصل کرکے جزوی کامیابی بھی حاصل کر لی۔ مکمل کامیابی کا انحصار یقیناً اب ریاست پر ہے کہ وہ کتنی جلد مطالبات پر عمل درآمد کرتی ہے۔ پختون تحفظ کی تحریک اب ایک باضابطہ شکل اختیار کرچکی ہے۔ منظور پشتین کی سربراہی میں اب یہ ہر ضلع اور ایجنسی میں تنظیم سازی کا ارادہ رکھتی ہے اور مظالم کے خلاف بھرپور آواز اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ شمالی وزیرستان کے میرعلی علاقے سے تعلق رکھنے والے کاشف رحیم پشاور میں زیر تعلیم ہیں۔ وہ بھی احتجاج میں شریک رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس احتجاج نے انہیں بتا دیا کہ باہمی اتفاق میں بہت فائدہ ہے۔ ’اب سب جاگ گئے ہیں۔ ہمارے علاقے میں تو میڈیا نہیں تھا۔ گاؤں میں ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اب پڑھنے کے لیے باہر آئے ہیں تو سوشل میڈیا کی وجہ سے باخبر بھی ہوگئے ہیں۔
’’سوشل میڈیا کے باعث قبائلی جاگ اٹھے‘ ظلم کرنے والوں کو سوچنا پڑےگا‘‘
Feb 12, 2018