وزیراعظم عمران خان نے دوبئی ورلڈ سمٹ میں خطاب تو اعتماد سے کیا اورتقریر بھی جاندار کی۔ اگرچہ عمران خان کی اکثر تقاریر میں پرانی تکرار بھی ہوتی ہے لیکن کئی نئے نکتے بھی ہوتے ہیں لیکن عمران خان فی البدیہہ تقاریر کرتے ہیں اور دل سے کرتے ہیں اس لئے ان میں اثرانگیزی اور دلفریبی بھی ہوتی ہے اس لئے اس حد تک عمران خان کو اب علامہ اقبال کے آدھے مصرعہ تک پہنچ چکے ہیں کہ ’’گفتار کا غازی بن سکا‘‘ کیا ہی اچھا ہو کہ کردار و عمل کے بھی غازی بن کر دکھا دیں۔ میں اپنے کالموںمیں بارہا کہہ چکی ہوں کہ عمران کو قدرت نے نادر موقع دیا ہے کہ وہ خود کو امر کر لیں اور تاریخ کے ان عظیم مشاہیر کی صف میں شامل ہو جائیں۔ وہ رہتی دنیا تک انمٹ ہو جائینگے۔ عمران خان ذرا سوچئے کہ اس دنیا میں کروڑوں لوگوں کو بیک وقت دو چیزیں بھی میسر نہیں آتیں یعنی نہ اکٹھی دولت ملتی اور نہ حسن جوانی ۔ کبھی اکٹھی عزت یا صحت نہیں ملتی یا دولت اور شہرت اکٹھی نصیب نہیں ہوتی یا پھر شہرت یا دولت مل جائے تومحبت نصیب نہیں ہوتی۔ آپکو عزت، شہرت، دولت، صحت، محبت، حسن، جوانی طاقت، اقتدار اور اختیار سب کچھ ملا ہے۔ اولاد نصیب ہوئی اور خیر سے تین تین شادیاں بھی ہو گئیں جومردوں کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ زندگی کا 80 فیصد حصہ آپ نے بھرپور اور شاندار گزارا ہے۔ اب آپ کو اپنی مادر گیتی سے محبت کا حق ادا کرنا چاہئے۔ پاکستان کی 20 کروڑ عوام میں سے اٹھارہ کروڑ افراد مختلف مسائل اور آلام سے دوچار ہیں۔ خاص طور پر کرپشن، بیروزگاری، مہنگائی، ناانصافی، دہشت گردی ، بدامنی لاقانونیت اور گندا پانی … یہ ایسے سنگین مسائل ہیں جنہوں نے پاکستانیوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ ہاں پاکستان میں تقریباً ایک کروڑ لوگ ایسے ہیں جنہیں نہ کوئی فکر ہے نہ فاقہ ہے۔ انہیں ہر طرح افاقہ ہے۔ انکی پانچوں انگلیاں ہی گھی میں نہیں، ان کی ٹانگیں، دھڑا اور سر بھی گھی میں چپڑا ہوا ہے۔ ان لوگوں کی کرپشن، ناجائز اختیارات، چور بازاری، لاقانونیت، بربریت اور میرٹ کی خلاف ورزیوں نے انہیں امیر ترین ، طاقتور اور سفاک بنا دیا ہے جبکہ باقی لوگ پس رہے ہیں۔ کرپشن کی گنگا میں نہا کر لوگ این آر او کر لیتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضے لے کر اپنے بنک بیلنس بھرلیتے ہیں۔ پہلی مرتبہ خود وزیراعظم نے ایم ڈی، آئی ایم ایف کرسٹین لیگارڈ سے ملاقات کی ہے۔ عمران خان کو آئی ایم ایف سے قرضے لیتے ہوئے یہ سوچنا چاہئے کہ شرائط کا سارا بوجھ عوام پر لادا جائیگا۔ کیا یہ بھاری بھر کم قرضے عمران خان اپنی جیب سے ادا کرینگے؟ عمران خان ویسے تو پٹھان ہیں لیکن کسی کو اپنی جیب سے پیسے دینے میں مہاشیخ ثابت ہوئے ہیں اس لئے عمران خان کو قرضے لینے سے پہلے انتہائی سنجیدگی سے آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ کی کڑی شرائط کو غور سے سننا اور سمجھنا ہو گا۔ کرسٹین لگارڈ سے بھی زیادہ عمران خان کو چودھری فواد اور شیخ رشید کی باتوں پر کان دھرنا چاہئے۔ فواد چودھری اپوزیشن کے حوالے سے جو باتیں کر رہے ہیں۔ وہ نہایت قابل توجہ ہیں۔ عمران خان کو ان پر سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے۔ فواد چودھری وکیل بھی ہیں اور حقیقت میں بہت دور اندیش آدمی بھی ہیں۔ وہ اپوزیشن کی مکربازیاں اور حکومت گرانے کی کوششوں کو محسوس کر رہے ہیں۔ فواد چودھری ویسے تو بہت دبنگ آدمی ہیں جس پر اپوزیشن نے خاصا واویلا مچا کر فوادچودھری کیخلاف محاذ بنانے اور انہیںہٹانے کی سرتوڑ کوشش بھی کی ہے لیکن فواد چودھری کو بات کرنے کا فن اور مخالف کی قد و قامت کیمطابق کرنے کا ڈھب خوب آتا ہے۔ فواد چودھری کی باتوں میں بے تحاشہ رمز و کنا یہ بھی ہوتا ہے۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ ان اشاروں کو بھانپ کر ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے منفی اور جارحانہ ہتھکنڈوں کا توڑ کریں کیونکہ موجودہ اپوزیشن کے اس وقت صرف دو ہی ایجنڈے ہیں۔ ایک اپنی کرپشن کو چھپانا اور جیلوں سے بھاگنا جبکہ دوسرا ایجنڈہ حکومت کو بدنام کرنا اور حکومت گرانا ہے۔ اپوزیشن انہی دو ایجنڈوں پر کام کر رہی ہے۔ اسی لئے فیاض چوہان نے کہا ہے کہ نوازشریف زرداری کو پتلی گلی سے فرار نہیں ہونے دینگے۔
فواد چودھری سے بھی زیادہ شیخ رشید کی باتوں میں دم ہے۔ شیخ رشید اندر کی کہانیاں باطن کی خباثتوں اور کرپشن کی دیویوں اور دیوتائوں کو خوب جانتے پہچانتے ہیں۔ شیخ رشید کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ بے خوف ہو کر حق کی بات کرتے ہیں وہ کافی دن سے بار بار وارننگ دے رہے ہیں کہ ایک کرپٹ ، قاتل اور جرائم میں ملوث آدمی کو پی اے سی کی چیئرمین شپ کیوں دی گئی ہے۔ شہبازشریف نیب کی حراست میں ہیں اور ان پر سنگین الزامات ہیں۔ جب تک انکے سر سے یہ الزامات نہیں ہٹتے تب تک وہ کسی بھی حکومتی عہدے کے قابل اور اہل نہیں ہیں۔ صرف الزامات کی بنیاد پر بابر اعوان، اعظم سواتی اور علیم خان نے اپنی وزارتوں سے خوشدلی اور وقار کے ساتھ استعفیٰ دے کر پاکستان کی تاریخ میں ایک نادر مثال قائم کی۔ خاص طورپر علیم خان نے جس طرح استعفیٰ دے کر خود کو نیب کے حوالے کیا۔ اس سے علیم خان کی عزت او وقار میں اضافہ ہوا ہے۔ تینوں پر مالی بے ضابطگیوں کے الزامات ہیں۔