فاقہ مستی کا نیا شکار ۔۔۔ اور ۔۔۔ خاموش صدائیں

قرض واپس نہ کر سکنے کی پاداش میں قرض دینے والی طاقت نے زیمبیا کے دارالحکومت لوساکا کے ائرپورٹ کا کنٹرول حاصل کر لیا۔ اس سے قبل یہ تجربہ زیمبیا کی براڈکاسٹنگ کمپنی ZNBO اور بجلی سپلائی کرنے والی کمپنی کے معاملے میں بھی آزمایا جا چکا ہے۔ اس سے بھی قبل اس براعظم سے باہر سری لنکا کی پہلی بندرگاہ اور تاجکستان کی ایک ہزار مربع میل کلومیٹر زمین کی راہداری بھی اسی جرم میں قرض دینے والی قوت کے قبضے میں آ چکی ہے۔ زیمبیا پونے دو کروڑ آبادی والا ملک ہے جس کو کوئی سمندری راستہ میسر نہیں۔ اس نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی اور اس کا پہلا نام شمال رہوڈیشیا تھا۔ اس کی سرحدیں دیگر اہم افریقی ممالک زمبابوے‘ موزمبیق اور انگولا سے ملتی ہیں۔ تانبے کی پیداوار میں اس کا شمار افریقہ کے دوسرے بڑے ملک کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت یہ ملک قرضوں کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ زیمبیا کی کہانی بھی باقی ممالک سے مختلف نہیں۔ قرض دینے والے ملکوں اور بینکوں نے اپنے مخصوص طریقہ کار کے مطابق اس ملک میں ایسی اشرافیہ تلاش کرلی جو سیاسی طور پر بھی مضبوط تھی اور پھر اس پر نوازشات اور ککس بیکس کی بھرمار کردی اور اسے اس شرط پر قرضہ دیا کہ وہ اس قرض کو ترقیاتی پراجیکٹ پر خرچ کہ کرے۔ اس طرح پچاس اشرافیہ امیر سے امیر تر ہوتی گئی اور ملک مقروض سے مقروض تر۔ بالآخر جب قرض دینے کی باری آئی تو گروی کی طرز پر کمیٹی کو یا پراجیکٹ کو ہی قرض کرنے کا طریقہ آزمایا گیا۔ عام ترقی پذیر ممالک میں اب ایسے ہی طریقے سے قرض دیئے جا رہے ہیں اور قرض دینے والی طاقتیں دوستی کے پردے میں دشمنی کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ سڑکوں اور بغیر فزیبلٹی کے بندرگاہوں کی تعمیر قرض ڈینے والوں کی پسندیدہ آئٹمز ہیں۔ ان بنکوں نے اس امر کو بھی یقینی بنایا ہے کہ ایسے قرضے کسی ترقیاتی پرجیکٹس کا حصہ نہ ہوا اور دوسرا یہ نہ بنک کی سرح سود کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔ مگر بنک دیئے جاتے جانے والے قرضے کی مالیت سے زیادہ کی جائیداد گروی رکھے بغیر کسی صورت قرص نہیں دیتا۔ جیسے ہی کوئی ملک نادہندگی کے نقطے پر پہنچتا ہے بنک جائیداد کی قرقی کا عمل شروع کر دیتے ہیں۔ یہ طریقہ کار فوج کشی سے زیادہ مفید اور کم خطرناک ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں موثر و اشرافیہ بھی آسانی سے دستیاب ہے اس لئے کہ اس کی راہ میں مالی مزاحمت میں حائل ہو سکتی اور قرض دینے والے بنکوں نے پرامن بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت اس کا بھی بندوبست کر رکھا ہے۔
اٹھارویں صدی سے پہلے ایسے ممالک کو کالونیاں بنانے کا رجحان تو تھا مگر طریقہ کار مختلف تھا جبکہ اب اکنامکس کو قابو کرکے ہی کسی ملک کو کالونی بنانے کا رجحان سامنے آیا ہے۔ پاکستان کی صورتحال بھی اس حوالے سے زیمبیا سے مشابہ ہے کہ یہاں بھی موثر اشرافیہ بلکہ مورثی اشرافیہ کو اس کا کردار دیا گیا۔ اور بے دریغ قرضے دیئے گئے جن کی تفصیل اخبارات اور میڈیا پر موجود ہے۔ اور 2023ء تک جب اس کی نادہندگی کا نقطہ آئے گا تو پتہ چلے گا کہ قرض دینے والے کیا سلوک کرتے ہیں مگر دیگر ممالک میں آن وے طریقہ کار سے پتہ چلایا جا سکتا ہے۔ اسکا آسان علاج یہ ہے کہ قرضے ترقیاتی پراجیکٹس میں منتقل کروائے جائیں اور گروی کی شرائط کے بغیر حاصل کیئے جائیں۔ اشرافیہ کو غیر موثر کیا جائے یا کم از کم آ سکے کردار سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔ اور شرائط طے کرتے وقت قومی مفاد کو سامنے رکھا جائے۔ حکمت عملی میں تبدیلی یہی اس صورتحال سے جان چھڑا سکتی ہے ورنہ قرضوں کے بغیر تو ترقی پذیر ممالک کی شرح نمو حاصل کرنے کا کوئی اور طریقہ ہے نہیں۔ وہ تو کہنے پڑینگے اور قرض واپس کرنے کے عمل کو پراجیکٹس کی تکمیل کے بعد آن سے حاصل ہونیوالی آمدنی میں سے واپس کرنے کی شرط لازمی طور پر شامل کروائی جائے نہ کہ نادہندگی کی صورت میں پراجیکٹس کو ہی بطور گروی ہتھیانے کی پالیسی کو چپ چاپ تسلیم کیا جائے۔اگرچہ یہ صورتحال کافی مشکل اور صبر طلب ہے مگر قومی مفاد اور انا کی بات کرنیوالوں کو یہ عاشقی اختیار کرنے کیلئے لوگوں کو اعتماد میں لینے اور انہیں گزشتہ لئے گئے قرضوں کی تفصیل کو لوگوں کے سامنے لانا ہوگا اور اس نقطے پر پوری قوم کو تیار کرنا ہوگا کہ ترقی اور آزادی میں سے کون سا آپشن بہتر ہے۔ اس ہفتے موصول ہونیوالی کتابوں میں سرفہرست مرزا سکندر بیگ آف جہلم کا مجموعہ کلام ’’خاموش صدائیں‘‘ ہے موصوف ہمارے پسندیدہ شاعر مرحوم اقبال کوثر کے شاگرد ہیں اور ’’ادب افروز‘‘ کے صدر بھی ’’ادب افروز‘‘ تنظیم میں جہلم اوراردگرد کے تمام شعراء مل بیٹھتے ہیں جیسے کسی زمانے میں ’’ہمدانی ٹی سٹال‘‘ پرجمع ہوا کرتے تھے اوراس میں بھی سکندر بیگ جیسے میزبان موجود ہیں جو سبھی کو پیار محبت سے جمع کرتے ہیں۔ سکندر بیگ ویسے تو اعداد کا کھیل کھیلنے والے آدمی ہیں۔ میری ان سے جہلم میں سرسری ملاقات تھی مگر جب وہ راولپنڈی تعینات ہوئے تو ملاقاتیں بڑھ گئیں انہی دنوں ان کا پنجابی مجموعہ ’’دھپاں پچھلے پردیاں‘‘ زیر ترتیب تھا خاکسار نے بھی اس سلسلے میں کردار ادا کیا اور یوں یہ مجموعہ لاہور شائع ہو کر پنچابی پیاروں تک پہنچا مگر ابس وقت تک سکندر نے اپنی اردو شاعری کی ہوا تک نہ لگنے دی۔ میں ذاتی طور پر صرف اور صرف شاعری کا مداح ہوں۔ قمر رضا شہزاد نے درست کہا ہے کہ سکندرنے بے نیازی سے شادی کی ہے اور یہی بے نیازی نے اسے صرف اور صرف شادی تک اور اپنی بات اپنے آپ کو منونے کی جدوجہد سے انحراف تک اسکے کام آتی ہے۔ میں ذاتی دوستی کی بناء پر اسے اس مجموعے کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اسکے اگلے شعری سفر کیلئے دعا گو ہوں۔

ای پیپر دی نیشن