بہت کم ایسا ہوا ہے ہماری سیاسی تاریخ میں کہ کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی ہو اور وہ ایک اہم عہدے پر ہو۔ اس پر کسی ردعمل کی بجائے اس نے سب سے پہلے استعفیٰ دیا ہو۔ یہ سب کچھ علیم خان نے کیا ہے۔ وہ سینئر وزیر تھا۔ پنجاب حکومت میں بہت طاقتور آدمی اور ایک زبردست سیاستدان۔ وہ اب جیل میں ہے اور ٹی وی چینلز پر پروگرام ہو رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو عام طور پر نہیں ہوتا۔ خاص طور پر بھی نہیں ہوتا۔
میرے جاننے والے جانتے ہیں کہ مجھے اس کی کبھی پرواہ نہیں ہوتی کہ کوئی کتنا امیر آدمی ہے۔ میرے لئے اس بات کا بھی احساس نہیں کوئی وزیر ہے بلکہ وزیر شذیر ہے۔ میری ’’وزیر شذیر‘‘ کی اصطلاح کو مرحوم مجید نظامی نے بہت پسند کیا تھا۔ جبکہ مرشد و محبوب عظیم ترین صحافی مجید نظامی پسندیدگی بہت سنبھال کر رکھتے تھے۔ کبھی ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔
کئی ایسے اشخاص ہیں۔ سیاسی لوگ امیر کبیر اور وہ بہت معروف بھی ہیں۔ ان کے خلاف نیب نے مقدمات بنائے ہیں۔ ان کیخلاف ریفرنسز بھی تیار کر لئے گئے ہیں۔ مگر انہیں گرفتار نہیں کیا گیا۔ اس ملک کو لوٹنے والے نیب کو کبھی نظر نہیں آئے۔ یہ بات میں نے نہیں کہی۔ حکومتی پارٹی تحریک انصاف کے ایک اہم لیڈر نعیم الحق نے کہی ہے۔ نیب نے صرف عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران ان کے وزیروں کو گرفتارکیا ہے۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے جو کسی بھی المیہ سے کم نہیں ہے۔ پہلے اسلام آباد سے کہا گیا کہ نیب کی کارروائی کے حوالے سے کوئی بیان بازی نہیں ہو گی۔ مگر پھر نعیم الحق نے نیب کے لئے کچھ مخالفانہ باتیں کیں۔ جو بہرحال قابل غور ہیں۔ اس ملک میں ’’کتنے ادارے‘‘ ہیں جو گرفتار کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے جو اقدامات ضروری ہیں۔ ان کی کوئی ضرورت شاید نہیں ہے۔؟
نعیم الحق نے کہا کہ سب کی کچھ کمزوریاں بھی ہیں۔ وہاں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان نے شاید دبئی میں بہت زبردست تقریر کی۔ جس نے سنی وہ متاثر ہوا۔ یہاں بھی عمران نے اکائونٹیبلٹی کی بات کی۔ لگ رہا تھا جیسے پاکستان کو ایک لیڈر مل گیا ہے۔ مگر اس میں ایک سوچ ضرور ہے کہ کیا ہر لیڈر میں یہ خصوصیات ہوتی ہیں کہ وہ ایک اچھا حکمران بن سکے۔
ٹیلنٹ ایسی چیز ہے جو میرٹ کے بغیر ایکسرسائز نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک سوال ہے کہ پاکستان میں میرٹ کس حد تک تسلیم کی گئی ہے۔ کتنے معاملات ہیں جو میرٹ کے مطابق چلائے جاتے ہیں۔ نعیم الحق تحریک انصاف کے ایک اہم آدمی ہیں۔ انہوں نے نیب کے لئے مخالفانہ بات کی ہے۔ نیب کراچی میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگوں کو تنگ کرتی ہے۔ جبکہ لاہور میں بڑی بڑی باتوں کے لئے منصوبہ بندی کرتا ہے۔ یہ تو بنایا ہی سیاستدانوں کے لئے گیا تھا۔ نیب کے سربراہ کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے۔سپریم کورٹ کے سینئر جج رہے ہیں، نیب پر ہر طرف سے چڑھائی کی جا رہی ہے جو بہت حد تک جائز ہے۔
یہ بھی نیب کو خیال رکھنا چاہئے کہ جو اس نے ایک سینئر وزیرعلیم خان کے لئے کیا ہے اس کے بعد ہی نیب پر تنقید کا آغاز ہوا ہے۔ انجام بھی اسی پر ہو گا اور یہ ساری باتیں ہونے لگی ہیں جس کا کچھ تذکرہ میں نے کیا ہے۔ میں بڑے بڑے لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے کرپشن کی اور نیگٹو معاملات کی انتہا کی ہے۔ جو نیب کو مطلوب ہوچکے ہیں۔ مگر وہ دندناتے پھرتے ہیں۔ میں ایسے ایک شخص کو جانتا ہوں جو میرے ہمسائے میں ہے۔ اس کے محکمے کے بڑے افسران نے بڑے گھپلے کئے اور نیب سے ملی بھگت کے بعد محکمے کے معمولی ملازمین کو پھنسا دیا اور نیب کے لوگوں نے گرفتاریاں کیں۔ اب تک وہ معاملہ عدالتوں میں ہے اور کئی لوگ دھکے کھا رہے ہیں۔ معاملہ چند ہزار روپے کا ہے اور اس کے لئے نیب کی تحقیقات میں کئی لوگ اب تک ملوث ہو رہے ہیں۔
نیب کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو اور مخالفانہ جذبات رکھتے ہیں۔ نعیم الحق ق لیگ کے لیڈروں کے پاس آئے تھے۔ انہوں نے بہت کھل کر بات کی کہ ہمارے اتحاد میں کوئی کمزوری نہیں آئی۔ یہاں چودھری شجاعت بھی موجود تھے۔ وہ نعیم الحق سے زیادہ مطمئن اور مخلص نظر آئے اور بہت گہری اور اچھی باتیں کیں۔ نعیم الحق اپنے آپ کو بہت بڑا سیاستدان سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو لیڈر کے قریب لانا چاہتا ہے۔ وہ سنجیدہ آدمی ہے اور وہ لیڈر بھی تو ہے۔ میری ان سے ملاقات نہیں ہوتی۔ ایک بہت بڑی خاتون، تحریک انصاف میں ہیں۔ شروت روبینہ، وہ مجھے بہت پسند ہیں۔ بہت رتبے کی خاتون ہیں۔ انہیں اپنے خاتون ہونے پر فخر ہے۔ کچھ خواتین کو میں جانتا ہوں جو مرد بننے کی ناکام کوشش کرتی رہتی ہیں۔ جنہیں میرے قبیلے کے سردارشاعری کے خان اعظم منیر نیازی مرد ناک عورتیں کہا کرتے تھے۔ یہ بات منیر خان نے اپنی سالگرہ کے دن کہی تھی۔ ان کی سالگرہ نعیمہ بی بی ذوالقرنین اور غالب کے گھرمنائی گئی تھی۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ نعیمہ بی بی کے گھر میں اکثراوقات دوستوں کا جمگٹھا لگتا رہتا ہے۔ مرے قبیلے کے سردار منیر خان بھی اس گھر میں آیا کرتے تھے۔ اب میں وہاں جاتا ہوں اور زندہ ہو کر واپس آتا ہوں۔ یہاں برادرم خاور نعیم ہاشمی بھی آتے ہیں۔ نعیمہ اور ذوالقرنین اپنے گھر کو سب کاگھر سمجھتے ہیں۔
مجھے جب ستارہ امتیاز ملا تھا تو میرے لئے ایک شاندارتقریب نعیمہ بی بی اور ذوالقرنین نے زبردستی کی تھی۔ خاور نعیم ہاشمی مہمان خصوصی تھے۔ ایک تقریب برادرم توفیق بٹ نے الحمرا میں کی تھی۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر بابر اعوان تھے۔ وہ پنڈی سے تشریف لائے تھے۔ وہ میرے محسن ہیں۔
ستارہ امتیاز بھی ان کا ایک احسان ہے۔ ستارہ امتیاز میں نے صدر زرداری سے وصول کیا تھا۔ میں ان تکلفات سے بے نیاز ہوں اور یہ باتیں بھی دوستوں کے اصرار پر لکھ رہا ہوں۔ میں نے دوستوں اور دوسروں میں کبھی کوئی فرق نہیں کیا۔