بحث یہ ہو رہی تھی کہ پڑھے لکھے اور باصلاحیت لوگ ملک چھوڑ کر باہر منتقل ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ایک صاحب نے کہا کہ یہ برین ڈرین ( Brain Drain ) تو ایک عرصے سے جاری ہے۔ ایک سینئر بیوروکریٹ جو بحث میں شریک تھے، نے کہا کہ ’’پاکستان اب رہنے کے قابل نہیں‘‘ ۔ مذکورہ بیوروکریٹ کے بیٹے بیٹیاں ایک مغربی ملک میں سیٹل ہو چکے ہیں۔ موصوف کی کوشش ہے کہ ان کا داماد بھی باہر چلا جائے۔ بحث میں شریک ایک دوست نے کہا کہ مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ وہ لوگ جو پاکستان میں ’’Well to do ‘‘ ہیں وہ بھی باہر جا کررہنا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر پاکستانی اشرافیہ جس میں سیاستدان، بیوروکریٹس حتیٰ کہ وردی میں پاکستان کی خدمت کرنے والے اور ان کی اولادیں بھی شامل ہیں، پاکستان چھوڑ کر باہر جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ گفتگو سن کر مجھے پاکستان کے ایک سابق صدر میجر جنرل ریٹائرڈ سکندر مرزا کے صاحبزادے ہمایوں مرزا کی وہ بات یاد آ گئی جو انھوں نے اپنی کتاب ’’ فرام پلاسی تو پاکستان‘‘ ( From Plassi to Pakistan ) میں آج سے کم وبیش ساٹھ سال پہلے لکھا کہ جب میں نے لندن سے گریجویشن کی تو میں نے اپنے والد کو لکھا کہ میں امتیازی پوزیشن کے ساتھ گریجویشن کر چکا ہوں اور میں پاکستان واپس آ کر اپنے ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہوں، تو میرے والد نے جواباً لکھا کہ میں تمہیں مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان آنے کا ارادہ ترک کر دو، یہاں کے حالات اچھے نہیں۔ پھر مجھے ممتاز سول سرونٹ اور لکھا ’’مختار مسعود‘‘ کی وہ بات یاد آئی جو انھوں نے اپنی کتاب ’’ آوازِ دوست‘‘ میں لکھی ہے۔ مختار مسعود نے لکھا کہ وہ پاکستان بننے کے بعد اپنے ان ساتھیوں کو ڈھونڈ رہے تھے جنھوں نے تحریک پاکستان میں ان کے ساتھ جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔ ایک ساتھی جو تحریک پاکستان میں بہت متحرک تھا، پاکستان بننے کے بعد تجارت کے شعبے میں گیا اور چند سالوں میں بہت نمایاں کامیابی حاصل کی۔ میں اس کا پتہ ڈھونڈتے ہوئے اس کے گھر جا پہنچا۔ اس کا گھر بہت شاندار تھا۔ پتہ چلا کہ وہ امپورٹ ایکسپورٹ کا کام کرتا ہے۔ اس کے پرتعیش ڈرائنگ روم میں جب میں نے اس سے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا تو اس نے چھوٹتے ہی پاکستان کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا جس پر مجھے بہت صدمہ ہوا۔ مختار مسعود نے لکھا ہے کہ میں سوچ رہا تھا کہ اگر یہ شخص پاکستان میں نہ ہوتا اور متحدہ ہندوستان میں رہتا اور شاید کسی جگہ ریڑھی پر پھل بیچ رہا ہوتا۔ اس کی گفتگو سن کر میں جلد اس کے گھر سے رخصت ہو گیا۔ اس وقت ملک کے بیشتر بڑے لوگوں کی اولادیں جن میں سے اکثریت نے تعلیم بھی مغربی ملکوں میں حاصل کی ہے، پاکستان میں واپس آنے کیلئے تیار نہیں۔ والدین بھی ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ پاکستان سے باہر ہی رہیں۔ ایک خفیہ ادارے کی رپورٹ کے مطابق کئی ہزار سرکاری افسروں کے پاس دہری شہریت ہے۔ ایسے سرکاری افسر جنھیں پاکستان میں نہ صرف اعلیٰ عہدوں پر پہنچنے کا موقع ملا بلکہ اپنے اثر و رسوخ کا ناجائز استعمال کر کے بڑے بڑے اثاثے پاکستان اور پاکستان سے باہر بنا لیا۔ وہ اور ان کے بچے پاکستان میں رہنا پسند نہیں کرتے۔ پاکستان کے مزدور، نیم ہنر مند کارکن اور ہنر مند افراد لاکھوں کی تعداد میں بیرون ملک کام کر کے اپنے خاندانوں کا معاشی سہارا بنے ہوئے ہیں۔ تیل سے مالا مال عرب ملکوں میں کام کرنے والے لاکھوں پاکستانی دن رات ایک کر کے اربوں ڈالر وطن بھیج رہے ہیں اور ملکی معیشت کو سہارا دیئے ہوئے ہیں۔ ان کے برعکس وہ طبقہ جسے پاکستان کی بدولت نہ صرف بڑے عہدے ملے بلکہ اس نے بڑے بڑے اثاثے بھی بنائے، وہ اپنے مال و دولت سمیت پاکستان کو چھوڑ کر باہر جانا چاہتے ہیں۔ ان میں وہ حضرات شامل ہیں جو پاکستان کے حکمران طبقے کا حصہ رہے ہیں اور ملکی پالسیاں بناتے رہے ہیں۔ وہ پاکستان کی مستقبل کے بارے میں فیصلے کرتے ہیں، وہ اپنے وطن سے بیزار نظر آتے ہیں۔ اگر آج پاکستان کے حکمرانی کے نظام میں خرابیاں ہیں، اس کی ذمہ داری انھی پر عائد ہوتی ہے۔ انھوں نے پاکستان کو ایک بہتر نظام حکمران نہیں دیا۔ اگر ملک میں میرٹ کا نظام نہیں، انصاف نہیں، معاشی مساوات نہیں، لوٹ مار ہے اور آبادی بے تحاشا بڑھ رہی ہے ۔ شہری نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کو ملازمتیں نہیں مل رہیں کیونکہ پاکستان کی معاشی گروتھ آبادی کی گروتھ سے کم ہے۔ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے، اس کی ذمہ داری مزدوروں اور کسانوں پر نہیں بلکہ فیصلہ سازوں پر ہے۔ پچھلے ساٹھ ستر پرس تک اس ملک پر حکومت کرنے والے معاشی تعلیمی، خارجہ اور سلامتی کی پالیسیاں بنانے والے اس کے ذمہ دار ہیں۔ یہ پالیسیاں بناتے وقت انھوں نے ملکی مفاد پر اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو ترجیح دی۔ اس کا نتیجہ موجودہ پاکستان ہے۔ جس سے یہ طبقات خود بے زار نظر آتے ہیں۔ اس وقت کسی بھی ڈرائنگ روم میں بیٹھے اشرافیہ کے لوگ یہ بحث کر رہے ہوتے ہیں کہ ملک کا کیا بنے گا۔ یہ بحثیں بلیم گیم ہوتی ہیں۔ وہ صاحبان جنھوں نے ملک کو موجودہ تکلیف دہ صورتحال میں دھکیلا ہے وہ بھی اس کا الزام کسی دوسرے کے سر تھوپ رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں بے یقینی پیدا کرنے والے کرداروں کو اور نہیں تو خدا کا خوف کرنا چاہیے۔
پاکستان بننے کے بعد کے سال بہت کٹھن تھے۔ معیشت بہت ابتر تھی، سلامتی کی صورتحال پر دگردوں تھی، اس کے باوجود اس وقت کی سیاسی قیادت اور سول سرونٹس نے کمال ہمت اور کمٹمنٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا اور اگلی چند دہائیوں تک پاکستان میں قابل رشک تبدیلی آئی۔ پاکستان ایٹمی طاقت بھی بنا ۔ جو حضرات اب اس کے مستقبل کے بارے میں مایوسی پھیلا رہے ہیں، انھیں اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنے کردار کا خود محاسبہ کرنا چاہیے۔