حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت مسترد، پیسوں کا ذریعہ بتا دیں: ہائیکورٹ

لاہور(وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات ومنی لانڈرنگ کیس میں حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت خارج کر دی۔ جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت کی پر سماعت کی۔ وکیل نے موقف اختیار کیا کہ حمزہ شہباز کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ غیر سیاسی قوتیں نیب سمیت دیگر تحقیقاتی ایجنسیوں کو استعمال کر رہی ہیں۔ نیب نے منی لانڈرنگ کیس میں حمزہ شہباز کے ملازمین کو ہی بے نامی دار بنا دیا۔ حمزہ شہباز کو 189 دنوں سے گرفتار کیا گیا ہے مگر ابھی تک کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا گیا۔ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ خصوصی قانون ہے جس میں چیئرمین نیب کو مداخلت کا اختیار نہیں۔ نیب نے موقف اپنایا کہ سلمان شہباز کے اکائونٹ میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ کی ٹرانزکشن ہوئی۔ 55 کڑور رابعہ عمران کے اکائونٹ میں آیا اور ٹرانسفر ہوا۔ یہ پیسے گفٹ کی مد میں حمزہ شہباز کے اکاؤنٹ میں بھجوائے گئے۔ عدالت نے کہا کہ ممکن ہے کہ سالگرہ پر یہ تحفہ دیا ہو۔ حمزہ شہباز کے وکیل نے نیب پراسکیوٹر کے دلائل پر اعتراض کر تے ہوئے کہا کہ جن رشتے داروں کا نام لے رہے ہیں یہ کیس انکے خلاف نہیں۔ عدالت نے کہا کہ اگر بیرون ملک سے آنے والا پیسہ ان کے رشتے داروں کے اکائونٹ سے حمزہ کے اکائونٹ میں آیا ہے تو اس کا تعلق بنتا ہے۔ حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ لارجر بنچ کے فیصلے کے تناظر میں میرے موکل پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا، انکم ٹیکس ریٹرن میں ہر چیز بتا دی ہے۔ عدالت نے کہا کہ آپ نے ان پانچ افراد کا اس کیس سے تعلق نہیں بتایا۔ ان پانچ افراد کو اس کیس میں کیوںپکڑا گیا ہے۔ اگر ہو سکے تو ان افراد کے بارے میں آپ اپنا موقف دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، ان افراد پر کیا الزام ہے۔ نیب پراسکیوٹر نے کہا کہ ابھی تک ریفرنس فائل نہیں ہوا۔ اس کیس میں تاریخیں بہت اہم ہیں، ملزم کے والد دومرتبہ وزیر اعلی رہے۔ 2000ء میںاس فیملی کے اثاثہ جات چھ کروڑ تھے۔ 2003ء میں 18.9 کروڑ تک پہنچے۔ 2009ء میں اثاثہ جات68 کروڑ تک پہنچ گئے۔ پھر 211 ملین اور 2018 میں417 ملین ہوگئے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کتنی رقم بیرون ملک سے آئی۔ نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ 2008ء تک ذاتی اکائونٹ میں رقم آتی رہی، رقم بہن بھائی اور والدہ کے اکائونٹ میں بھی آتی رہی۔ عدالت نے مزید استفسار کیا کہ اب تک کتنے لوگ ٹریس ہوئے ہیں۔ جوپیسہ آیا ہے وہ ڈائرئیکٹ اکائونٹ میں آیا ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جی یہ تمام پیسہ ذاتی اکائونٹ میں آیا ہے۔ اس موقع پر نیب پراسکیوٹر نے محبوب علی کا بیان حلفی بھی عدالت میں پڑھ کر سنایا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ ابھی تک مطمئن نہیں کرسکے کہ ان پیسوں کا سورس کیا ہے، آپ کی ساری باتیں ہم مان لیں تو منی لانڈرنگ کا قانون ہی ختم ہو جائے گا۔ حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ منی لانڈرنگ قانون کا اطلاق تب ہوگا جب جرم ہوگا۔ عدالت نے کہا کہ آپ نے جب دلائل شروع کیے تو فیملی ہسٹری بتائی گئی کہ والد تین مرتبہ وزیر اعلی رہے کیا یہ پبلک آفس ہولڈر ہونا کم ہے۔ حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ جب یہ پیسے ٹرانسفر ہوئے تب جلا وطن تھے،اس وقت کوئی ہاتھ ملانے کا روادار نہ تھا،حمزہ شہباز کبھی پبلک آفس ہولڈر نہیں رہے اور نہ کسی سے رشوت لی۔ عدالت نے کہا کہ ہم آپ پر رشوت لینے کا الزام نہیں لگا رہے۔ عدالت نے سلمان بٹ سے دوبارہ استفسار کیا کہ آپ پیسوں کا سورس بتا دیں۔ حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ ایف بی آر ریکارڈ میں تمام تفصیلات درج ہیں۔عدالت نے کہا کہ ہم نے سیدھا سوال پوچھا ہے کہ آپ ان پیسوں کا سورس بتا دیں۔ حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ انکم ٹیکس کے حوالے سے سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ موجود ہے وہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں۔ جس پر فاضل عدالت نے کہا کہ آپ پلیز پلیز ہمیں بھی دیں۔ عدالت نے دوبارہ استفسار کیا کہ اثاثہ جات میں بوم کب آیا۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 2018ء میں 41کروڑ کا اضافہ ہوا۔ عدالت نے حمزہ شہباز کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ ان پیسوں کے آنے کا سورس بتائیں۔ نیب وکیل نے کہا کہ پیسوں کے آنے کا پیریڈ 2008 سے 2018 ہے۔ حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ اکاونٹ میں مختلف اوقات میں بیرون ملک سے پیسے ٹرانسفر ہوئے۔ حمزہ شہباز پر منی لانڈرنگ قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ منی لانڈرنگ قانون کیوں لاگو نہیں ہوتا۔ وکیل نے کہا کہ حمزہ شہباز شریف کے اکاؤنٹ میں پیسے قانون بننے سے پہلے ٹرانسفر ہوئے۔ منی لانڈرنگ کا پہلا آرڈیننس 2007 میں آیا۔یہ آرڈیننس 90 روز بعد ختم ہوگیا۔ دوسرا آرڈیننس2009 آیا، منی لانڈرنگ کا قانون 2010 میں آیا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...