معاشی جرائم سے ہر سال 3.5 کھرب ڈالرزکا نقصان ہوتاہے، رپورٹ

Feb 12, 2020

کراچی(کامرس رپورٹر) ’’ڈیجیٹل کے دور میں معاشی جرائم ‘‘کے عنوان سے شائع ہونے والی تازہ ترین رپورٹ میں بیان کیے گئے ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں معاشی جرائم کی وجہ سے ہر سال 3.5 کھرب ڈالرز سے زیادہ کا نقصان ہوتاہے جو برطانیہ کی مجموی خام ملکی پیداوار(جی ڈی پی)سے زیادہ ہے۔ ان معاشی جرائم کے نتیجے میں لا تعداد افراد اپنی بچتوں ، ملازمتوں اور ،بعض اوقات ،اس سے بھی زیادہ سے محروم ہو جاتے ہیں۔دی ایسوسی ایشن آف چارٹرڈ سرٹیفائیڈ اکاؤنٹنٹس(اے سی سی اے) اورارنسٹ اینڈ ینگ )ای وائے(کی مشترکہ رپورٹ میں دونوں اداروں سے تعلق رکھنے والے سینئر پریکٹشنرز کا تجزیہ شامل ہے۔ اس رپورٹ میں کاروباری اداروں کو درپیش جدید ٹیکنالوجی کے ماہر حملہ آوروں کی جانب سے خلاف ورزی سے دفاع جیسے چیلنجوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ریسرچ میں شامل پینل کے مطابق اب بھی ایک ایساریگولیٹری ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے جومالی جدت کو اعانت فراہم کرنے کے ساتھ صارفین اور کاروباری اداروں کے لیے خطرات بھی کم کرے۔ پالیسی سازوں اور ریگولیٹرز کو لازماً ٹیکنالوجی کے شعبے میں پائی جانے والی سست روی پر قابو پانا چاہیے اورخاص طور پر جہاں قانون سازی اورٹیکنالوجی کافی حد تک ایک دوسرے کے ساتھ موجود ہیں۔اے سی سی اے میں ہیڈ آف ٹیکس اینڈ بزنس لاو، جیسن پائپر کی رائے میں تیکنکی پیش رفت اور مجرمانہ سرگرمی اکثر اوقات ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔جیسن پائپر نے مزیدکہا کہ ٹیکنالوجی کے اسکوپ کا مطلب ہے کہ صرف ایک حملے میں معاشی جرم سے ممکن طور پر زیادہ لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔انہوں نے کہا:’’اقتصادی ترقی تیکنکی پیش رفت کی بنیاد پر پھولتی پھلتی ہے، تاہم، مجرمانہ سرگرمی بھی اپنے رد عمل کا اظہار کرتی ہے اور مجرم ایسے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں جو ریگولیٹرز ، جائز کاروباری اداروں اور ان کے کسٹمرز ، آڈیٹرز اور مشیروں کے لیے یکساں چیلنج پیدا کرتے ہوں۔‘‘انہوں نے مزید کہا:’’کمیونٹی میں قانون اور ریگولیٹری نفاذ کے موقع پر اِس سستی میں مہارتوں اور علم کی کمی سے اور زیادہ شدت آجاتی ہے۔حالیہ برسوں میں،مجرموں نے بین الاقوامی آپریشنز سے جس طرح فائدہ اٹھایا ہے اُس طرح ریگولیٹرز فائدہ نہیں اٹھا سکے۔‘‘ایسے بدمعاش عناصر کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جوڈیٹا کی سا لمیت کو نقصان پہنچانے کے لیے ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی اور جدت کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
اِس خطرے سے مؤثر انداز میں نمٹنے کے لیے کمپنیوں کو آرٹیفیشل انٹیلی جنس، روبوٹک پروسیس آٹومیشن (آر پی اے) اور سائبر سیکیورٹی جیسے شعبوں کا ، جو اُن کے اہم پروسیسز اور ڈیٹا سے منسلک ہوں ، محتاط انداز میں جائزہ لینا اور جانچنا چاہیے۔ رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے اے سی سی اے پاکستان کے ہیڈ، سجید اسلم نے کہا:’’سائبراسپیس میں ملکی حدود کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن قانون کے نفاذ میں ان حدود کو ضرورسامنے رکھنا چاہیے۔ جرائم سے نمٹنے کے لیے، کاروباری اداروں اور ،دنیا بھر میں،قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ مل کر اس کے خلاف کارروائی کر سکیں اور ایک مشترکہ عالمی ریگولیٹر طریقہ پر بھروسہ کرنا چاہیے جس میں نئے منظر نامے بیان کیے گئے ہوں اور جو ڈیجیٹل کے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔‘‘ارنسٹ اینڈینگ کے گلوبل فورینسک اینڈ انٹیگریٹی سروسز لیڈر، اینڈرو گورڈن نے کہا:’’دیانتداری کے ماحول میں شمولیت اداروں کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ اس طرح کے ڈیٹا انسائٹس، گورننس ، ماحول، کنٹرولز اور پروسیجرزکے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے جو خطرات کے مسلسل بدلتے ہوئے منظرنامے میں خود اداروںکو تحفظ فراہم کرتا ہو۔‘‘

مزیدخبریں