سینیٹ انتخابات کے لیے جوڑ توڑ عروج پر ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے حوالے سے یہ خبریں ہیں کہ یہاں کوئی فارورڈ بلاک بن رہا ہے یا وہ رکن صوبائی اسمبلی جو چھوڑ کر گیا ہے اس کے جانے سے کوئی طوفان برپا ہونے والا ہے۔ ایسے بیان کیا جا رہا ہے جیسے چھوڑ کر جانے والا کوئی بہت صاف شفاف، مانا ہوا، انصاف پسند، آئین و قانون پر عمل کرنے والا، جمہوریت کی حقیقی روح پر عمل کرنے والا یا پھر عام آدمی کا ہمدرد ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے آج تقریریں کرنے والے خرم لغاری خود کو انقلابی ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس حوالے سے بھی ہم آج سائرن ضرور بجائیں گے۔ جہاں تک فارورڈ بلاک کا تعلق ہے یہ ہماری سیاسی تاریخ اور سیاسی طرز عمل ہے یہاں ہر الیکشن ایسے ہی فارورڈ بلاک کے شور میں ہوتے ہیں۔ ہر اپوزیشن کی ہر وقت یہی خواہش ہوتی ہے کہ فارورڈ بلاک بنتے رہیں اور حکومت عدم استحکام کا شکار رہے سو اس سیاسی اور انتخابی پس منظر کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ اس فارورڈ بلاک کا بھی وہی حال ہو گا جو ماضی میں بننے والے فارورڈ بلاکس کا ہوا ہے۔ ویسے اس مرتبہ کوئی فارورڈ بلاک نہیں بن رہا جو یہ خواہش رکھتے ہیں انہیں خبر ہو کہ یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔ اس حوالے سے مسلم لیگ نون پنجاب کی ترجمان عظمیٰ بخاری کہتی ہیں کہ پنجاب میں حکومت کے بیس باغی ارکان کا گروپ پہلے بھی موجود ہے۔مانگے تانگے کی حکومت کا شیرازہ بکھرنے کا وقت آگیا ہے۔ مسلم لیگ نون میں فارورڈ بلاک کے خواب دیکھنے والوں کی اپنی جماعت میں فارورڈ بلاک بننے جارہا ہے۔یہ وہی لوگ ہیں جنہیں جہانگیرترین کے جہاز میں بٹھا کر بنی گالہ پہنچایا گیا تھا، اب اْن کے جہاز سے اْترنے کا وقت ہو چکا ہے۔ یہ ترجمان صاحبہ کا بیان لفظ بہ لفظ آپ کے سامنے رکھا ہے۔ انہیں یہ بات کرتے ہوئے اپنی جماعت کی چھانگا مانگا کی گندی سیاست کو بھی دیکھنا چاہیے۔ بہرحال اس طرف زیادہ بات کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہماری سیاسی تاریخ ایسے مکروہ واقعات سے بھری پڑی ہے۔ بہرحال میں آپکو بتاتا ہوں کہ جن بیس ارکان کو یہ باغی قرار دے رہی ہیں یا ان کی جماعت انہیں باغی سمجھ رہی ہے یا یہ ان کے کندھے پر بندوق رکھ کر اپنے مفادات کی تکمیل چاہتے ہیں ایسا نہیں ہو گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریکِ انصاف کے لیے سینیٹ انتخابات میں مسئلہ کہاں ہے۔ پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ جنوبی پنجاب کے اراکین سے آ سکتا ہے اور اس وقت سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا بھی وہیں سے ہے لیکن یہ صورتحال ایسی نہیں کہ اس پر قابو نہ پایا جا سکے۔ جنوبی پنجاب کے سیاستدان بلیک میل کریں گے، حکومت بلیک میل ہو گی انہیں سینیٹ میں نمائندگی دی جائے گی اور یوں باغی اراکین کی بغاوت ختم ہو جائے گی۔ ان کی بغاوت صرف اور صرف ذاتی مفادات کے لیے ہے حکومت ان باغیوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کی طاقت و قوت و استطاعت رکھتی ہے وہ تحفظ کرے گی اور مسائل حل ہو جائیں گے۔ رہی بات خرم لغاری کی تو موصوف کو آج عمران خان کا نوجوانوں کے حوالے سے وعدہ یاد آ رہا ہے کیا وہ اپنا وقت بھول گئے ہیں کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد کیا گل کھلاتے رہے ہیں ان کے حوالے سے کئی ایسی چیزیں ریکارڈ پر ہیں جو انہیں مفاد پرست ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں وہ پی ٹی آئی چھوڑنے کے ساتھ ساتھ عوام کو یہ بھی بتائیں کہ ان سے معاون خصوصی کا عہدہ کیوں واپس لیا گیا تھا اور جب چینی سکینڈل میں شوگر ملوں کی تفتیش ہو رہی تھی اس وقت ان پر لگنے والے الزامات کی حقیقت وہ خود ہی بتائیں۔ وہ لوگوں سے کیا کیا مطالبات کرتے رہے، انہوں نے لوگوں کو کس کس طرح تنگ کیا ہے اور حکومت میں ہونے کا کیسے کیسے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے انہوں نے اس تالاب میں گنگا میں چھلانگ ضرور لگائی جہاں سے کوئی خشک باہر نہیں آتا وہ کتنے گیلے ہوئے کتنے خشک رہے یہ قصہ ادھار کرتے ہیں لیکن انہوں نے خود کہیں نوجوان نسل کی نمائندگی کی ہو تو بتا دیں، نوجوانوں کے لیے کچھ کیا ہو تو بتا دیں۔ وہ خود ہر وقت جماعت کے ساتھیوں کی جاسوسی کا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں۔ ایک جاسوس کی حیثیت سے انہوں نے تھوک کے حساب سے جھوٹ بولا ہے اس لیے انہیں باغی نہیں بلکہ ایک مفاد پرست سیاستدان کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے اور ہمیں ایسے مفاد پرستوں کے خلاف واضح موقف اپنانا چاہیے۔ یہ نہ خود عوام کے لیے کچھ کرتے ہیں نہ کسی کو کرنے دیتے بلکہ ہر وقت سرکاری عہدے اور مرتبے کا ناجائز استعمال کرنے کے طریقے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ میرے پاس ان کی کارروائیوں کے حوالے سے بہت ثبوت و شواہد موجود ہیں اگر خرم لغاری کو شک و شبہ ہے تو وہ رابطہ فرمائیں تو ان چیزوں کو دیکھ کر ان کی تسلی ضرور ہو جائے گی۔
رہا مسئلہ خواجہ داؤد اور خواجہ شیراز کا تو وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سے تو یہاں اصول کے بجائے مسئلہ قبائلی برتری، اور شخصی اختلاف ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ یہ نہ تو اصولوں کی لڑائی ہے نہ اختلافات کی وجہ عوامی مسائل ہیں۔ دراصل یہ آج تک سردار عثمان بزدار کو دل سے وزیر اعلیٰ تسلیم نہیں کر پائے۔ وہ خود کو ان سے برتر سمجھتے ہیں، وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عثمان بزدار کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے بزدار قبائل ترقی کر کے ان سے آگے نکل جائیں گے۔ یہ قبائلی سوچ ہے، اب عثمان بزدار وزیر اعلیٰ بن گئے ہیں تو ان سے ہضم نہیں ہو رہا انہیں یہ بھی اعتراض رہتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے حلقے میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہے ان کا حلقہ یا علاقہ ترقی کر جائے گا تو وہ اپنے لوگوں کو کیا جواب دیں گے۔ فرق صرف اتنا ہے اور تو کوئی بات نہیں۔ اس بارے سردار عثمان بزدار کو ناپسند کرنا یا مخالفت کرنا کیسے مناسب ہے کہ صرف ترقیاتی منصوبوں اور قبائلی برتری کو سامنے رکھتے ہوئے مخالفت شروع کر دی جائے۔ حالانکہ اگر ان کے ہمسائے کا حلقہ بہتر ہو گا تو لامحالہ اس سے اردگرد کے لوگ بھی فائدہ اٹھائیں گے اور ایک حلقے میں کام ہونے کے بعد ساتھ والوں کی باری بھی آنی ہی ہے سو اس کے لیے بہتر تعلقات قائم رکھ کر بھی وقت گذارا جا سکتا ہے۔ سو حالات یہی بتاتے ہیں کہ خواجہ داؤد کا مسئلہ پاکستان تحریکِ انصاف سے نہیں بلکہ ذاتی حیثیت میں وزیر اعلیٰ کو تسلیم نہ کرنے کا ہے اگر وہ انہیں تسلیم کر لیتے ہیں تو یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے۔ خواجہ داؤد اور خواجہ شیراز کا مسئلہ شخصی اختلاف پر مبنی ہے انہیں پاکستان تحریکِ انصاف یا اپنے ضلعوں کا کوئی غم نہیں ہے۔
سینیٹ انتخابات کے لیے حکمران جماعت کی جو اہم شخصیات سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کی خواہش مند ہیں ان میں سیف اللہ نیازی، بابر اعوان، شہزاد اکبر، عمرسرفراز چیمہ، اعجاز چودھری،ظہیر عباس ،جلال الدین رومی، سیف الدین کھوسہ، ڈاکٹر زرقا،تنزیلہ عمران، جمشید اقبال چیمہ اور ثانیہ نشتر شامل ہیں۔ ان ناموں میں ڈاکٹر زرقا سب سے زیادہ محنتی اور باصلاحیت ہیں۔ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے لیے ناصرف بہت کام کیا ہے بلکہ بہت قربانیاں بھی دی ہیں اور گذشتہ دو برس میں انہیں جو بھی ذمہ داری دی گئی ہے اسے بہت اچھے طریقے سے نبھایا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ قومی اسمبلی میں ہوتیں، کابینہ میں رہ کر ملک و قوم کی خدمت کرتیں ایسا تو نہیں ہو سکا لیکن اب یہ بہترین موقع ہے کہ ڈاکٹر زرقا جیسی باصلاحیت اور حقیقی سیاسی کارکن کا نام سامنے آیا ہے انہیں ٹکٹ ضرور ملنا چاہیے کیونکہ یہ پاکستان تحریک انصاف کا حقیقی چہرہ ہیں۔ ان کے ساتھ سیف اللہ نیازی کا نام بھی خوش آئند ہے۔ علی ظفر بھی قابل انسان ہیں۔ ان تمام لوگوں کی سینیٹ میں موجودگی سے ملک و قوم کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ یہ بہتر فیصلے ہیں کاش کہ دوہزار اٹھارہ میں اسی سوچ کے ساتھ فیصلے کیے جاتے تو پی ٹی آئی کے مسائل کم ہو سکتے تھے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم نے جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ میچوں کی سیریز جیتنے کے بعد ٹونٹی ٹونٹی سیریز کا بھی فاتحانہ آغاز کیا ہے۔ گوکہ جنوبی افریقہ نے بھی اچھا مقابلہ کیا لیکن فتح پاکستان کو ملی۔ محمد رضوان نے ایک مرتبہ بہترین بلے بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی افادیت ثابت کی ہے انہوں نے اوپن کرتے ہوئے ناصرف سینچری سکور کی بلکہ گلوز کے ساتھ بھی ٹیم کی کامیابی میں اپنا حصہ ڈالا۔ وہ مسلسل رنز کر رہے ہیںز مشکل حالات میں رنز کر رہے ہیں یہ ان کی ذہنی مضبوطی اور محنت کا نتیجہ ہے۔ ٹیسٹ سیریز کی فتح میں بھی ان کا کردار نمایاں تھا یہاں پہلے میچ میں بھی وہ مرد میدان رہے۔ عبدالقادر مرحوم کے بیٹے عثمان قادر نے بھی اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے۔ وہ اپنی شاندار باؤلنگ سے ٹیم کو واپس میچ میں لے کر آئے ان کی دو وکٹیں میچ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئیں۔ گوکہ جنوبی افریقہ کو تجربہ کار کھلاڑیوں کی خدمات حاصل نہیں تھیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے دلیری سے مقابلہ کیا اور آخری گیند تک لڑتے رہے۔ ٹیم پاکستان سے آئندہ میچوں میں بھی عمدہ کھیل اور چھے نتائج کی توقع ہے۔