اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے وزیراعظم ترقیاتی فنڈز کیس کے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ جسٹس فائز عیسی کو وزیراعظم سے متعلق مقدمات نہیں سننے چاہیئں۔ سپریم کورٹ نے وزیراعظم ترقیاتی فنڈز کیس کا 5 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔ فیصلہ چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد نے تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس فائزعیسیٰ نے وزیراعظم کیخلاف ایک مقدمہ دائرکررکھا ہے۔ وہ انصاف کے تقاضوں اور غیرجانبداری کے پیش نظر وزیراعظم سے متعلق مقدمات نہ سنیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے جوابات کے بعد مزید کارروائی کی گنجائش نہیں۔ دوران سماعت جسٹس فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو بعض دستاویزات دیں۔ یہ دستاویزات جسٹس فائز عیسی کو واٹس ایپ پر نامعلوم ذرائع سے ملیں، اورجسٹس فائز عیسیٰ کو دستاویزات کے درست ہونے کا خود بھی علم نہیں تھا۔ اٹارنی جنرل نے دستاویزات درست نہ ہونے کا اعتراض کیا۔ اور اٹارنی جنرل نے معاملے میں جسٹس فائز عیسیٰ کے شکایت کنندہ ہونے کا بھی اعتراض اٹھایا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا بطور شکایت کنندہ جسٹس فائز عیسیٰ کو کیس نہیں سننا چاہیے۔ ان حالات میں جسٹس فائز عیسی کیلئے مقدمہ سننا مناسب نہیں۔ قبل ازیں سپریم کورٹ نے ارکان اسمبلی کو فنڈز دینے سے متعلق خبر کی تردید کو واضح اور قابل قبول قرار دیتے ہوئے از خود نوٹس نمٹا دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعظم کا جواب کافی مدلل ہے، ہم وزیراعظم آفس کو کنٹرول کرنے نہیں بیٹھے۔ جج صاحب اور وزیراعظم ایک مقدمہ میں فریق ہیں۔ سیکرٹری خزانہ کی طرف سے وزیر اعظم کی دستخط شدہ رپورٹ عدالت عظمی میں جمع کرائی گئی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت عظمی کی طرف سے وزیر اعظم سے جواب مانگنے کے گزشتہ کے حکم پر اعترض اٹھاتے ہوئے موقف اپنایا کہ کسی رکن اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز نہیں دیئے جا سکتے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا وزیر اعظم ذاتی حیثیت میں جوابدہ تھے؟۔ وزیر اعظم کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ وزیر اعظم اس وقت جوابدہ ہے جب معاملہ ان سے متعلقہ ہو۔ حکومت جوابدہ ہو تو وزیراعظم سے نہیں پوچھا جا سکتا۔ عدالتی حکم میں جواب وزیراعظم کے سیکرٹری سے مانگا گیا تھا۔ حکومت سیکرٹریز کے ذریعے چلائی جاتی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ جو اعتراض آج کر رہے ہیں وہ کل کیوں نہیں کیا۔ کل مجھے واٹس ایپ پر کسی نے کچھ دستاویزات بھیجی ہیں، حلقہ این اے 65 میں حکومتی اتحادی کو بھاری بھرکم فنڈز جاری کیے گئے ہیں۔ کیا سڑک کی تعمیر کے لیے مخصوص حلقوں کو فنڈز دیئے جا سکتے ہیں۔ کیا حلقے میں سڑک کیلئے فنڈز دینا قانون کے مطابق ہے۔ ہم دشمن نہیں عوام کے پیسے اور آئین کے محافظ ہیں۔ امید ہے اٹارنی جنرل بھی چاہیں گے کہ کرپشن پر مبنی اقدامات نہ ہوں۔ کیا وزیراعظم کا کام لفافے تقسیم کرنا ہے۔ وزیراعظم نے کہا پانچ سال کی مدت کم ہوتی ہے۔ وزیراعظم کو چاہیے توسیع کے لیے اسمبلی سے رجوع کریں۔ آپ نے شاید میری بات ہی نہیں سنی۔ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آئینی سوال کسی بھی سطح پر اٹھایا جا سکتا ہے۔ معزز جج کافی دیر سے آبزرویشن دے رہے ہیں۔ میری بات تو سنی ہی نہیں گئی۔ وٹس ایپ والی معزز جج کی شکایت کا حکومت جائزہ لے گی۔ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دئیے کہ مجھے شکایت کنندہ نہ کہیں میں صرف نشاندہی کر رہا ہوں۔ میرے خلاف ٹویٹس کی بھرمار ہورہی ہے۔ کیا کرپٹ پریکٹس کے خلاف اقدامات الیکشن کمشن کی ذمہ داری نہیں۔ معلوم نہیں کہ وزیراعظم کو سیاسی اقدامات پر آئینی تحفظ حاصل ہے یا نہیں۔ ماضی میں عدالتیں وزراء اعظم کو طلب کرتی رہی ہیں۔