سفروسیلہء ظفر

 سرکاری اور غیر سرکاری حیثیت سے بارہا بیرون ِ ملک جانا پڑا۔الحمدللہ کوئی سفر بھی ایسا نہیں تھاجس نے میر ی وسعتِ نظر، بصیرت اور علم و آگاہی میں اضافہ نہ کیا ہو۔ شکر ہے ہم ایسے زمانے میں پیدا ہوئے ہیں کہ تیز رفتار ذرائع نقل و حمل نے سفر آسان کر دیا ہے ورنہ پہلے زمانے میں اونٹوں ، گھوڑوں، ٹٹوئوں، خچروں اور گدھوں پر سفر ہوا کرتا،سمندری سفر بھی بادبانی جہازوں سے ہوا کرتاتھا۔ ہوا کا چلنا بند ہو جاتا تو ضخیم جہاز کھڑے کے کھڑے رہ جاتے۔ سندباد جہازی کے اسفاراگرچہ افسانوی ہیں مگر دلچسپ ہیں۔سفر نامے لکھنے کارواج عہد قدیم سے ہے۔مسلمان سیاحوں نے بھی بڑے دلچسپ سفرنامے لکھے جنہیں، تاریخ کے ماخذ کی حیثیت بھی حاصل ہے۔مثلاً ابنِ بطوطہ وغیرہ۔علم و حکمت اور مشاہدات وتاثرات کے شاہ کار گلستاں و بوستاں شیخ سعد یؒ کی جہاں گردی کی طفیل ہی وجود میں آئے۔خود حضرت ِ شیخ ؒ بھی ان دونوں کتابوں کی بدولت حکیم ، معلمِ اخلاق ، شاعربے بدل اور صاحب اسلوب نثر نگار تسلیم کئے گئے۔
 اللہ تعالیٰ کی رحمت سے عاجز کو عمرے اور حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی لیکن افسوس کہ گلستاں وبوستاں تو دور کی بات عام سفر نامہ بھی نہ لکھ پایا۔برسبیل تذکرہ میں نے اپنی سوانح عمری ’’ارشادنامہ‘‘ میں جسے فیروز سنز لاہور نے شائع کیا ہے۔ اور جس میں بعض دیگر قانونی مہمات اور ظفر علی شاہ کیس کے تاریخ ساز فیصلے کی تفصیل کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سفروں کا ذکر آگیاہے۔ ’’ارشادنامہ‘‘ ایک ایسے سائیکل سوار یتیم بچے کی کہانی ہے جو بیساکھیوں کے بغیر پاکستان کا چیف جسٹس بن گیا۔اس کا بچپن،جوانی،تعلیم،وکالت،ججی اور ملک و قوم کی خدمات کی ہرمنزل اور ہر مرحلہ سبق آموز ہے۔’’ارشادنامہ‘‘میں اس سارے سفر کی داستان صاف صاف بیان کر دی گئی ہے۔یہاں پر امر قابل ذکر ہے کہ روزنامہ نوائے وقت، دیگر اخبارات اورمیگزین میں ’’ارشادنامہ‘‘ پر سیر حاصل بے شمار تبصرے چھپ چُکے ہیں۔ مصنف اس کیلئے شکر گزار ہے۔
پہلا سفراگست 1965ء میں ہوا۔پاکستان سے چلا، لبنان پہنچا پھرایمسٹر ڈم ، جینوا، سوئٹرزلینڈ، پیرس سے ہوتا ہوا لندن پہنچ گیا۔ لند ن میں چند دن قیام کے بعد واپسی کا عزم ہو ا تو معروف ائیر لائن کے ایل ایم کے دفترگیا جہاں موجود ایجنٹ نے کہا جناب آپ کو پتہ ہے ؟ پاکستان اور انڈیا کی جنگ ہو رہی ہے اور انڈیا نے لاہور پر قبضہ کر لیا ہے۔یہ سُن کر ہاتھ پائوں پھُول گئے۔میں نے تصدیق کیلئے پاکستان کے سفارت خانے فون کیا، وہاں کوئی بڑا پُر جو ش اہل کار بیٹھا ہوا تھا۔میں نے پوچھا بھارتی حملے کی خبر سچ ہے؟اُس نے جواب دیا ’’ نہیں نہیں پاکستان نے انڈیا پر حملہ کر دیا ہے۔‘‘  میں ہائی کمیشن کے دفتر پہنچا۔ وہاں پاکستان جانے کے کئی خواہشمند اکٹھے تھے۔ انہوں نے ایک سیکنڈ آفیسر کو گھیر رکھا تھا کہ بھئی ہمیں بتائو کہ ہم پر حملے ہو رہے ہیں یا ہم بھی کوئی حملہ کر رہے ہیں؟ وہ افسر بڑا جوشیلا تھا۔ اس نے سوال کرنے والے سے کہا، ذرا سامنے آئو۔ وہ بندہ سامنے آیا تو اس نے اسے ایک دھکا دیا۔ وہ بندہ گرتے گرتے بچا۔ اس کے بعد افسر نے کہا: ہمارے ساتھ یہ ہوا۔ اگر میں اچانک تمہیں دھکا دوں گا، تو کیا تم مجھ پر حملہ کرو گے؟ تم پہلے گرو گے، اٹھتے اٹھتے وقت لگے گا۔ بہرحال، ہم دیکھ لیں گے کہ کیا ہوگا۔
خیر میں نے وہی یہ سوچ کر عمرہ کرنے کا پروگرام بنالیا کہ بیت اللہ شریف اور روضہء رسول پر بیٹھ کر اللہ اللہ کریں گے، جنگ ختم ہوجائے گی تو واپس وطن چلے جائیں گے۔سعودی عرب جانے کیلئے جہاز میں سوار ہوگیا جہازنے پہلاسٹاپ فرینکفرٹ(جرمنی)میں کیا۔ اگلی پرواز چھ ،سات گھنٹے بعد تھی، میں نے وقفے کو غنیمت جان کر فرینکفرٹ کی سیر کی ٹھانی۔ چنانچہ ٹرام میں بیٹھ کر شہر پہنچا ۔گھوم پھر کر واپس ائیر پورٹ پہنچا تو میرا جہاز سامان سمیت اُڑ چُکا تھا۔پریشانی کے عالم میںاستقبالیہ کائونٹر سے رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ آج اورکوئی فلائٹ نہیں جائیگی۔استقبالیہ پر بیٹھی خوش اخلاق ، ذہین اور سمارٹ لیڈی سے میری پریشانی نہ دیکھی گئی،اُس نے تھوڑی دیر سوچااور درمیانی راستہ نکال لیا۔خاتون نے کمپنی کے خرچے پر انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل قاہرہ (مصر)میں دو دن کے قیام کے ساتھ جدہ پہنچنے کا بندوبست کردیا۔
سعودی عرب میں قدم رکھتے ہی مجھے رووضہ ر سولؐ پر حاضری دینے کی شدید تمنا ہوئی۔ شوق کا یہ عالم تھا کہ جلد ی میں اپنا پاسپورٹ جدہ کے ہوٹل میں ہی بھول گیا۔اس زمانے میں مدینہ منورہ گاوٗں کی طرح تھا۔ روضہ رسولؐ کے ساتھ چارپائیاں پڑی تھیں، روضہ رسولؐ پر حاضری اور نوافل کی ادائیگی کے بعد تھکان اتارنے کی غرض سے ایک ریال ادا کر کے ان میں سے ایک چارپائی پر لیٹ گیا۔ صاف ستھرا بستر، کسی ہوئی ادوائن، بڑی اچھی نیند آئی۔ میں نے سوچا کہ دو تین دن یہیں رہا جائے۔ چنانچہ میں روزانہ ایک ریال کے عوض چار پائی حاصل کر لیتا تھا۔ البتہ نہانے کاانتظام خاصا گڑبڑ تھا اس کا حل یہ نکالا کہ پاس ہی ترکی حمام تھا ایک ریال کے عوض اُس سے بھی فیض یاب ہونے لگا۔وہیں پر ایک صاحب سے جان پہچان ہو گئی۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں اور حضورؐ کے روضے کے باہر ہی رہ رہا ہوں بڑا لطف آ رہا ہے۔اس نے کہا: آپ کو اپنے یہاں ہونے کی اطلاع پولیس کو دینا چاہئے۔ پولیس کے علم میں لائے بغیر یہاں رہنا درست نہیں آپ گرفتاربھی ہو سکتے ہیں۔ صورتِحال سے آگاہ ہوتے ہی پولیس اسٹیشن پہنچا تو اُنہوں نے مجھ سے پاسپورٹ طلب کیا جیسے میںجدہ کے ہوٹل میں بھول آیا تھا۔ آدھ گھنٹہ یک طرفہ تکرار چلتی رہی، یک طرفہ اس لئے کہ وہ میری انگریزی سمجھنے سے قاصر تھے اور میں ان کی عربی کو معانی کا جامہ پہنانے سے معذور تھا۔ بہرحال، انہیں مجھ پر ترس آیا اور انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔اس کے بعد انہی صاحب نے مجھ سے کہا کہ اب تم جب عمرے کیلئے مکہ جائو گے تو وہ تمہارا پاسپورٹ چیک کریں گے، تم پھر پھنس جائو گے۔ اس کا حل میں نے یہ نکالا کہ اپنے لئے عربوں کے مخصوص لباس کا انتظام کر لیا، اور وہ پہن کر مکہ پہنچا۔ مجھے کسی نے نہیں روکا اور یوں میں نے عمرہ بھی کر لیا۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن