کراچی (رپورٹ۔امین یوسف) ملک میں آئندہ ماہ ہونے والے سینیٹ انتخابات کاشیڈول جاری ہوتے ہی سیاسی گہماگہمی عروج پر پہنچ گئی ہے،۔ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سمیت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)اور متحدہ قومی موومنٹ کے سندھ سے منتخب گیارہ سینیٹرز آئندہ ماہ ریٹائر ہو جائیں گے۔جن میں پیپلز پارٹی کے 7 اور متحدہ قومی موومنٹ کے 4 سینٹرز شامل ہیں،سینیٹ کی جنرل نشستوں سے 7 ، ٹیکنوکریٹ کی دو اور خواتین کی دوسینیٹرز چھ سالہ مدت پوری کرکے ریٹائرہو رہے ہیں جن کی جگہ نئے ارکان کا انتخاب کیا جائے گا۔ پی پی پی کے ریٹائر ہونے والے سینیٹرز میں سینٹ کے موجودہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا،سینیٹر فاروق ایچ نائیک،سینیٹر رحمان ملک، سینیٹراسلام الدین شیخ، سینیٹرگیان چند، سینیٹرشیری رحمان اور سینیٹر سسی پلیجو بھی شامل ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹرز میںبیریسٹر محمد علی خان سیف، میاں عتیق، خوش بخت شجاعت اور نگہت مرزا شامل ہیں۔ سسی پلیجو اور نگہت مرزا خواتین کی نشست جبکہ بیریسٹر محمد علی خان سیف اور سلیم مانڈوی والا ٹیکنوکریکٹ کی نشست پر کامیاب ہوئے تھے۔ان ریٹائر ہونے والے سینیٹرز کے بعد ایوان میں سندھ کی نمائندگی کرنے والوں میں ایم کیو ایم کے بیریسٹر فر وغ نسیم ، مسلم لیگ فنکشنل کے سید مظفر حسین شاہ، کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رضا ربانی، مولا بخش چانڈیو، مصطفیٰ نواز کھوکھر، ڈاکٹر سکندر میندرو، انور لعل ڈین، کیشو بائی، رخشانہ زبیری، سید محمد علی جاموٹ اور قرۃ العین جاموٹ شامل ہیں۔سینیٹ میں اس وقت سندھ اسمبلی میں ارکان کی تعداد 166 ہے جبکہ دو خالی نشستوں پر ضمنی انتخاب 16 فروری کو ہو رہے ہیں جس کے بعد سندھ اسمبلی کا ایوان مکمل ہو جائے گا۔ اس وقت کی صورتحال میں سب زیادہ نقصان ایم کیو ایم کا نظر آرہا ہے جس کے چار ارکان ریٹائر ہو رہے ہیں لیکن وہ دوبارہ اس تعداد میں سینیٹرز منتخب کرنے کی پوزیشن میں نہیں، جبکہ پیپلز پارٹی سندھ اسمبلی سب سے زیادہ اکثریتی جماعت ہونے کے ناطے اس پوزیشن میں ہے کہ اپنے سات سینیٹرز کودوبارہ منتخب کرسکے۔الیکشن کمیشن کے انتخابی قوائد کے مطابق ایک ووٹ کی ویلیو 100 ووٹوں کے برابر تصور کی جاتی ہے اس طرح سندھ اسمبلی میں 21 ارکان جنرل نشست پر ایک سینیٹر منتخب کریں گے جبکہ خواتین اور ٹیکنوکریٹ نشست کے لیے 56 ارکان کے ووٹ کی ضرورت ہو گی۔فی الحال گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس نے صدر الدین شاہ راشدی کواپنا امیدوارنامزد کیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے سینیٹرز کے ناموں کو حتمی شکل دینے اور دیگر جماعتوں سے بات چیت کے لئے صلح مشورے جاری ہیں۔سندھ اسمبلی میںپارٹی پوزیشن پر نظر ڈالی جائے تو پیپلزپارٹی کی 97، تحریک انصاف کی 30،متحدہ قومی موومنٹ کی 21، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی 14، تحریک لبیک کی 3اور متحدہ مجلس عمل کی ایک نشست ہے۔