گلگت بلتستان پاکستان کے شمال میں واقع علاقے ہیں جنہیں قدرت نے خوبصورت نظاروں سے دل کھول کر نوازا ہے ۔سر بلند پہاڑوں کی یہ سر زمین نرم دل نرم خو اور صلح پسند لوگوں کا گھر ہے یہاں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔اس علاقے میں تین بلند ترین سلسلہء کوہ موجود ہیں اور آپس میں ملتے ہیں یہ سلسلہ ء کوہ، ہندوکش ، ہمالیہ اور قراقرم ہیں ۔یہ جگہ نہ صرف یہ کہ سیاحوں کی جنت ہے بلکہ اپنے پُر امن ماحول کی وجہ سے محفوظ بھی ہے۔یہاں کے لوگ انتہائی محب وطن ہیں لیکن ان پُر امن لوگوں کو بھی ہمارے دشمنوں نے نہ چھوڑا اور یہاں بھی فساد کا بیج بُونے کی کوشش کی اور کچھ لوگوں کو ملک کے خلاف کرنے کی کوشش کی۔یہاں ایسے این جی اوز لائے گئے جو لوگوں میں غلط فہمیاں پھیلانے کا کام کرتے تھے ۔یہاں کے لوگوں نے کبھی بھی خود کو پاکستان سے جدا نہیں سمجھا نہ ہی کبھی یہاں یہ احساس پایا گیا کہ یہ کوئی متنازعہ علاقہ ہے یہاں سے کئی قومی ہیرو اٹھے اور ملک کا نام روشن کیا ۔اگر آپ واقعی کوئی پُر امن لوگ اور ماحول دیکھنا چا ہتے ہیں تو شمالی علاقہ جات کو دیکھ لیجئے لیکن ان لوگوں کو بھی فساد میں ڈالنے کی کوشش کی گئی اور یہاں بلاوارستان کے نام سے لوگوں کو اُکسایا گیا اور بلاوارستان نیشنل فرنٹ کے نام سے ایک تحریک شروع کی گئی جو اگرچہ کبھی بھی مقبولیت حاصل نہ کر سکی تاہم ایک بیج بُونے کی کوشش ضرور کی گئی اور ای یو ڈس انفو لیب کے مطابق انہیں بھارت کی طرف سے مالی امداد فراہم کی گئی ۔یہ کوئی پہلا واقعہ یا علاقہ نہیں جہاں بھارت مداخلت کر رہا ہے بلکہ فاٹا اور بلوچستان میں اس کی مداخلت کے واضح اور بیّن ثبوت موجود ہیں اور کلھبوشن یادیو کی گرفتاری اور اس کے اعتراف نے تو پاکستان کے اس دعوے پر مزید مہر تصدیق ثبت کر دی ہے ۔بلوچستان کے تمام قومیت پسند لیڈر بھارت اور افغانستان میں پناہ لیے ہوئے رہتے ہیں ۔یہی حالات گلگت بلتستان میں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔1995میں عبدالحمید خان نے بلاوارستان نیشنل فرنٹ کی بنیاد رکھی لیکن 1999میں وہ ملک چھوڑگئے اور بیس سا ل بلجیئم اور بھارت میں گزار کر 2019میں پاکستان واپس آگئے اور 8فروری 2019کو سیکیورٹی فورسز کے سامنے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالے 26فروری2019 کوان کی تنظیم کو کالعدم قرار دیا گیا۔ایسے ہی ایک قومیت پسند سید حیدر شاہ رضوی تھے جن کے بارے میں ان کے بیٹے کا یہ خیال ہے یا اس کو یہ باور کرایا گیا کہ انہیں جیل میں قتل کیا گیا اس واقعے کے بعد حیدر شاہ کے بیٹے مہدی شاہ کو لے کر ان کی والدہ کراچی آگئیں تاہم ملک دشمنوں نے اس لڑکے پر کام کرنانہیں چھوڑا اور مسلسل اس نوجوان کو استعمال کرتے گئے۔سید مہدی شاہ کو اٹلی کا سکالرشپ دیا گیا اور اس سے رابطے کو آسان بنا دیا گیا اور بین الاقوامی این جی اوز نے ’’را‘‘ کے کہنے پر اس سے رابطے کئے۔ سید مہدی شاہ جس نے یکم فروری کو سیکیورٹی اداروںکے سامنے ہتھیار ڈالے نے اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ اسے کہا گیا کہ وہ شہید کا بیٹا ہے لہٰذا اس کی خصوصی مدد کی جائے گی ۔اس سے امجد مرزا نام کے ایک شخص نے رابطہ کیا اور اسے بتایا کہ گلگت بلتستان بھارت کا حصہ ہے بقول مہدی شاہ رضوی کے اسے اسی طرح کی باتیں کر کے دھوکہ دیا گیا اور اسے پاکستان کے خلاف بیانات دینے پر اُکسایا گیا اور اسے تسلی دی گئی کہ وہ فکر نہ کریں بھارت اس کی مدد کے لیے اس کی پُشت پر ہے اس سے کہا گیا کہ اس کی بھارت کے وزیراعظم مودی سے ملاقات کروائی جائے گی اسے باقاعدہ پیسے دیے گئے اور کہا گیا کہ پاکستان کے خلاف بولے اور پاکستان کے خلاف مظاہروں میں شرکت کرے۔امجد ایوب مرزا نے سکاٹ لینڈ میں اس کی ملاقات ’’گلگت بلتستان بچائو ‘‘تحریک کے دوسرے ممبروں سے کروائی۔اس نے بتایا کہ نیشنل ایکولیٹی پارٹی کے سجاد راجہ اور یونائٹڈ کشمیر پیپلزپارٹی کے شوکت کشمیری گلگت بلتستان کے لوگوں کو پاکستان مخالف بیانات دلوانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔اس نے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے والے دیگر مہروں کے نام بتاتے ہوئے کہا کہ ایڈوکیٹ محبوب بلاور ، مشتاق کامریڈ، علی شان،حبیب اللہ، آصف ناجی، قمر نجمی،نجف علی، غیاث الدین اور شبیر معیار وغیرہ سب فوج اور پاکستان کے خلاف بیانات دینے کے لیے استعمال ہوتے رہے۔سید مہدی شاہ کا کہنا ہے کہ اسے اقوام متحدہ میں نمائندگی کا بھی لالچ دیا گیا اور یوں اسے پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا۔
مہدی شاہ واحد کردار نہیںجس کو بھارت نے اپنے دام میں پھانسا بلکہ یہ ان بہت سارے لوگوں میں سے ایک شخص ہے جسے بھارت پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔نوجوان ذہنوں کو ورغلانا چونکہ آسان ہے اس لیے بھارت نوجوانوں پر خصوصی طور پر کام کرتا ہے جس کی ایک اور بڑی مثال منظور پشتین کی ہے تاہم مہدی شاہ کو بہت جلد اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور اس نے ملک کے خلاف کام کرنے سے انکار کر دیا اور اعتراف کرتے ہوئے بھارت کے چہرے سے نقاب اُلٹ دیا ہے ۔ڈس انفو لیب کے انکشافات کے بعد یہ ایک اہم اعتراف اور انکشاف ہے جو دنیا کو بھارت کا اصل چہرہ دکھانے کے لیے کافی ہے ۔بھارت پاکستان پر کشمیر میں دراندازی کا الزام لگاتا ہے اور کشمیر ہی کیا بھارت کا میڈیا تو اپنی حکومت کی شہہ پر کسی دور دراز کے گائوں میں طبعی موت مرنے والی گائے کے قتل کا الزام بھی پاکستان پر دھرنے سے نہیں ہچکچاتا لیکن ایسے بھٹکے ہوئے نوجوانوں کے راہ راست پر آنے کے بعد اعترافی بیانات بھارت کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہیں اور پاکستان کے اس موقف کی تائید ہے کہ خطے میں بدامنی کا واحدذمہ دار بھارت ہے۔