بلاشبہ اتفاق و اتحاد اور یکجہتی انسانوں کی سب سے بڑی طاقت ہے، اس کا مشاہدہ ہم زندگی کے ہر مرحلے میں کرتے ہیں۔ انسانوں کے زندگی گزارنے کا سماجی نظام اسی وحدت اور یکجہتی کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے فلاح انسانی کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنی چھوٹی بڑی خوشیوں میں دوسرے انسانوں کو شریک کریں اور دوسروں کے غموں میں باہم شریک ہوں۔ دوسروں کے لیے خوشیاں کشید کرنے اور دکھی انسانوں کے سماجی و معاشرتی مسائل کے حل میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کو پست اور منقسم کرنے میں چند عالمی طاقتوں کی سامراجی ذہنیت، چالبازیاں اور پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والی قوتیں، سامراج اور اس کے پالیسی ساز ادارے عالم اسلام کو کسی صورت متحد نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ ایک ایجنڈے کے تحت عالم اسلام کو تقسیم کررہے ہیں اسلام کی مضبوظ جڑوں کو دیمک کی طرح کھوکلا کرنے میں لگے ہوئے ہیں مضبوط متحد اسلامی قواتین کسی طرح ان کے مفاد میں نہیںان ہی وجوہات کی کے باعث مسلمانوں میں اختلافات ہیں اور اسلامی ممالک اور ان کے حکمرانوں میں اتحاد نہ ہونے کے برابر ہے۔دنیا کی تمام اقوام و مذاہب میں سب سے پہلے یکجہتی کا درس دین اسلام نے دیا ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، خواہ کوئی مشرق ومغرب کا رہنے والا ہو یا شمال وجنوب کا، کوئی مسلمانوں کے علاقے میں رہتا ہو یا کافروں کے علاقے میں، سب مسلمان بھائی ہیں اور بھائیوں کے ساتھ اظہاریکجہتی کرنا ایک شریف اور باکردار قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ اسلام نے بلا تفریق مذہب وملت انسانی برادری کا وہ نقشہ کھینچا ہے جس پر سچائی سے عمل کیا جائے تو شر و فساد ،ظلم و جبر اور انارکی سے بھری دنیا جنت کا منظر پیش کرنے لگے ۔ محض انسانیت کی بنیاد پر تعلق و محبت کی جو مثال اسلام نے قائم کی ہے دنیا کی کسی تعلیم، کسی مذہب اور کسی مفکر کی وہاں تک رسائی نہیں۔ نبی کاارشاد گرامی ہے ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو،ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو،سب مل کر خدا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جاو۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دو۔ ایک دوسری جگہ ارشاد ہے جورحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ تم زمین والوں پہ رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کریگا،سازشی عناصر ان حالات اور کمزوریوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور اتفاق و یکجہتی پر دیا گیا ہے۔ آپس میں محبت ،اخوت، بھائی چارہ، ایمان واتحاد اور یقین مسلمانوں کا موٹو ہوتا ہے۔ہم نے ترقی اور جدت کے نام پر اسلام کے سنہری اصولوں کو بھلا دیا ہے جس کی وجہ سے تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود مسلمان ہر جگہ خوار ہورہے ہیں مسلمانوں کو جارحیت کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور مسلمان ممالک کی معیشتوں کو دھوکے مکرو فریب سے کمزور سے کمزور کیا جارہا ہے اور امداد کے نام پر طرح طرح کی پابندیاں لگائی جارہی ہیں ان سب کا مقصد کہ مسلمان سر نہ اٹھا سکیں اور سامراجی طاقتوں کے آگے مجبور ، محکوم اور غلام کی طرح رہیںاگر ہم اسلام کے سنہری اصولوں پر سختی سے کاربند ہوجائیں اور ہر معاملے میں اللہ کی خوشنودی اور احکامات کے تحت امور سرانجام دیں تو اللہ تعالی دین و دنیا کی کامیابی عطاء فرمائے گا۔رسول اللہ نے حجتہ الوداع میںارشاد فرمایا کہ مسلمانو باہمی اختلاف میں نہ پڑنا۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا حکم ہے ولا تفرقوا اختلاف ہرگز ہرگز نہ کرو۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیں اختلاف ہی کی وجہ سے قوموں اور ملکوں کو بڑے بڑے نقصان اٹھانا پڑے ہیں۔ اختلاف ہی کی وجہ سے مسلمان ممالک پستی اور ذلت کا شکار ہیں۔ غربت، مہنگائی، بدامنی، لاقانونیت ، بے روز گاری، جہالت، انتقام، لوٹ مار، ڈاکے، اغوا، قتل و غارت جیسے موذی امراض مسلمانوں میں باہمی اختلافات ہی کا نتیجہ ہیں۔ آج جہاں امت مسلمہ کے مسلمانوں میں مثالی اتفاق و اتحاد و یکجہتی کی ضرورت ہے وہاں ہمارے معاشرے اور حلقہ احباب میں انسانی یکجہتی کی شدید ضرورت ہے ، دوسروں کے ساتھ خیر خواہی کرنے والے جذبے کو بیدار کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ دوسروں کے دکھوں کو بانٹنے ، نفرتوں اور بے حسی کی روش ترک کرتے ہوئے ایک دوسرے کے معاون اور مددگار بننے کی ضرورت ہے۔