چل دئیے تم کہاں؟

زندگی کس قدر مختصر ہے بالکل ایک پھول کی مانند جو کھلا اپنے رنگ اور بہار سے چمن کی رونق کو دوبالا کیا اور مرجھا گیا لیکن ہم میں سے بہت سے اپنی مہکار اس طرح بکھیر جاتے ہیں کہ تادیر چمن میں اْسکی باس باقی رہتی ہے جبکہ کچھ بن کھلے مرجھا گئے یا اس طرح سے کھلے کہ نہ چمن میں اْنکے وجودکا کسی کو پتہ چلا نہ بہار کی ہوااْن کی مہک سے معطر ہوسکی۔ کامیاب لوگ وہی ہیں جنہوں نے اپنا ہر دن کامیاب گزارا اور کوئی دن تو کیا کوئی لمحہ بھی بیکار جانے نہیں دیا۔ ان دو دنوں میں دو عظیم خواتین کی وفات نے افسردہ سا کردیا۔ دونوں ہی جدوجہد اور کامیابی کی اعلیٰ داستانیں رقم کرگئیں۔میں پہلے اپنی لیجنڈ لکھاری محترمہ بشریٰ رحمن صاحبہ کے بارے میں لکھنا چاہوں گی۔ اْردو ادب سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص نے اْنکی تحریروں اور زبان دانی سے فیض پا یا ہے۔ میںسکول میں پڑھتی تھی جب پہلا ناول"پیاسی" پڑھا۔اگرچہ اس پر ایک ڈرامہ نشر ہوا لیکن مجھے ناول پڑھنے کا زیادہ مزہ آیا۔نثر نگاری اور ناول نگاری میں بشریٰ رحمٰن ہمیشہ میری پسندیدہ رہیں اور میں ہمیشہ ان سے ملنے کے بارے میں سوچا کرتی۔ آخراپنے شوہر کے توسط سے اْنکے گھر اور اْنکے آفس میں کئی بار اْن سے ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا۔ بشریٰ رحمٰن نستعلیق شخصیت کی مالک تھیں۔جو بات ان کی تحریروں میں نظرآتی ہے وہی رکھ رکھائو، محبت، انا اور دانش اْن کی شخصیت میں بھی نمایاں تھی ۔کسی نے سچ کہا ہے کہ کسی عالم کے پاس کچھ دیر بیٹھنا سینکڑوں کتب پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے۔ میں جتنی دیر اْن کے پاس بیٹھی ہر بات ہر جملے سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کوملا۔ہر بات مدلل اور باوزن کرتیں۔ پہلی ملاقات سے کچھ عرصہ قبل انکے شوہر کی وفات ہوئی تھی۔ ہماری پہلی ملاقات ان سے انکے گھر پر ہوئی۔ عالیشاں گھر کے بہت بڑے ڈرائینگ روم کو نہایت نفاست سے سجایا گیا تھا۔اشیاء کا چنائو اور ترتیب اْن کے اعلیٰ ذوق کا نمونہ تھی۔ یہیں انکی بہت بڑی تصویر بھی آویزاں تھی کچھ دیر بعد میرے اور میرے شوہر کیلئے اشیائے خورونوش سے بھری ہوئی ٹرالی آئی۔ پاس بیٹھیں اور مسلسل ہر چیز کھانے پراصرار کرتی رہیں۔ ہر چیز اْنہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے تیار کی ہوئی تھی۔ جس میں کباب، گاجر کا حلوہ، مٹھائیاں اور دیگرکئی اشیاء شامل تھیں۔ دبنگ لہجہ اور مضبوط کردار کی عورت کا دل انتہائی نرم اور مہربان تھا۔ اپنے شوہر کی باتیں دیر تک سناتی رہیں اور روتی رہیں۔ میں بھی اپنے آنسو نہ روک سکی اور ان کا ہاتھ تھام کر دیر تک اْن کی باتیں سنیں۔ ان کادرد مجھے محسوس ہورہا تھا وہ اپنے شوہر اور بچوں سے محبت کرنے والی بیوی اور ماں تھیں۔ کہنے لگیں جب بچے چھوٹے تھے تو میں اْنہیں گود میں لے کر دوسرے ہاتھ سے کھالیا کرتی۔ ادب سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آخری دنوں میں بھی سیرت طیبہ لکھ رہی تھیں اور کیسی خوش بختی اور نیک بختی کا مقام ہے کہ اپنے کام کو پایہ تکمیل تک بھی پہنچایا۔ بشریٰ رحمٰن نے بطوررکن قومی اسمبلی بھی اپنی ذمہ داریاں نہایت دیانتداری سے نبھائیں۔ بتاتی تھیں کہ کئی بل انہوں نے منظور کروائے، کئی بار فون پر بات ہوئی تو کہہ رہی تھیں کہ کورونا کی وجہ سے اب کہیں آتی جاتی نہیں ہوں۔ طبیعت بھی خراب رہتی ہے۔ بہت سی یادیں ہیں۔ ہلکا پھلکا مذاق بھی کرتی رہیں۔ ابھی بھی انکی باتیں کانوں میں گونجتی ہیں۔29اگست1944ء کو پیدا ہوئیں۔ 2008سے2013تک نیشنل اسمبلی کی ممبر رہیں۔ وومن کوٹہ میں 2002سے2007تک رہیں۔ 1985ء تا1990ء تک پنجاب اسمبلی کی رکن رہیں۔ آپ نے ستارہ امتیاز حاصل کیا۔ چارہ گر، بہشت، کس موڑ پر ملے ہو۔ لگن، راہ راست، بت شکن، چاند سے نہ کہو، چپ، اک آوارہ کی خاطر، پیاسی اور بے شمار دیگر کتب کی مصنفہ تھیں۔ میں نے جب انہیں بتایا کہ میں نے بہت شوق سے پہلا ناول"پیاسی" پڑھا تو بہت خوش ہوئیں۔ اللہ پاک انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائیں۔ آمین۔ بشریٰ رحمٰن کا قلم اْداس اور چپ ہوگیا ہمیشہ کیلئے ۔جبکہ برصغیر کی نامور گلوکارہ لتا منگیشکر کی وفات پر بھی دل اداس ہوگیا کچھ لوگ دلوں میں اتنی محبت اور جگہ بنا لیتے ہیںکہ مذہب اور سرحدوں کی قید بھی ان کا راستہ نہیں روک پاتی۔ ہندوستان میں گونجنے والی اس سریلی آواز کاجادو دنیا بھر میں جاگا۔ تقریبا70 -80سال تک ہرنسل کو متاثر کرنے والی یہ واحد محسور کن آواز تھی۔ جو ہر ایک کی پسندیدہ تھی۔ 50ہزار سے زائد نغموں کو گانے والی اس خوبصورت ترین آواز کی مالکہ کا میں نے ایک انٹرویو دیکھا جس میں وہ کہہ رہی تھیں کہ ’’ اگر مجھے اگلا جنم ملا تو میں لتا منگیشکر کبھی نہیں بنوں گی۔آپ نہیں جانتے لتا منگیشکر نے کتنے دکھ سہے ہیں‘‘۔ لیکن دْنیائے موسیقی میں ہمیشہ اْن کا نام اور مقام یقینا کوئی دوسرا نہ پاسکے گا۔انکے بے شمار نغموں کی گونج آج بھی ہر دل کی دھڑکن میں گونجتی اور ہر کان میںرس گھولتی ہے۔ لتا28 ستمبر 1929ء کو اندور میںپیدا ہوئیں اور 6فروری 2022ء کو دار فانی سے کوچ کرگئیں۔ لتا نے13سال کی عمر میں اپنے کیرئیر کاآغاز کردیا تھا اور شروع میںہی انکے گانے مشہور ہوگئے۔ یہ بلبل بھی ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...