حبیب جالب نے عورت کی جرأت، بہادری اور دلیری کو سلام پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’ ڈرتے ہیں بندوقون والے، ایک نہتی لڑکی سے‘‘ ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب ظلم، بربریت اور استبداد بڑھا تو اسکے خلاف آوازیں بھی اٹھیں۔ ان میں کچھ روز قبل کرناٹک میں حجاب پر پابندی کے معاملے پر نعرہ تکبیر بلند کرنے والی مسکان کی آواز بھی تھی جو بی جے پی کے انتہا پسند ہندؤں کے سامنے ڈٹی ہوئی تھی سوشل میڈیا پر یہ ایک چھوٹا سا واقعہ لاکھوں نظروں سے گذرا اور لاکھوں دلوں میں جرأت کا درس دے گیا کہ مسلمان نہتا بھی ہو تو اسکا بھروسہ ایمان اور مرکز صرف خداکی ذات ہوتی ہے۔ ساٹھ کی دھائی میں رچرڈ ہالپرن کی کتاب منظرعام پر آئی جو ایک تحقیقی مقالہ تھا کہ وہ کیا محرکات ہیں کہ مسلمان اختلافات کے باوجود ایک جھنڈے تلے جمع ہوجاتے ہیں اس نے تاریخ کا بھی مطالعہ کیا اور یہ نتیجہ نکالا کہ جب تک مسلمانوں میں نعرہ تکبیر کا جذبہ ،روح ِمحمد ﷺ اورجذبہ جہاد موجودہے انکو توڑنا مشکل ۔ تب سے ہنود ،یہود اور نصاریٰ نے اپنا رخ اسلام کی طرف موڑ لیا۔ توہین آمیز خاکوں سے انکے جذبات کومجروح کیاگیا اور جذبہ جہاد کو دہشت گردی کی طرف موڑنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ عزم اگر مضبوط اور جذبہ حریت سے معمور ہو تو چاہے کشمیری عوام ہوں ،بھارتی مسلمان یا مسکان خان ، عزم کوتسخیر کرنا مشکل ہوجاتا ہے لیکن دوسری طرف اس قسم کے واقعات بھارت کے اس مکروہ دعوے کا پول کھول دیتے ہیں کہ وہ اقوام عالم میںخطے کی سب سے بڑی ریاست ہونے کادعویدار ہے بھارت کی انتہا پسند سوچ پورے خطے کیلئے خطرہ اور لمحہ فکریہ ہے۔ اپنے سائز اور جغرافیائی مقام کی وجہ سے اس نے پوری دنیاکیلئے جس کردارکاتعین کیاہے وہ چانکیائی نظریات کو نچوڑ ہے اور جس کامقصدبزور طاقت خود کو منواناہے۔ کسی ادیب نے لکھا کہ بھارت کی مثال پنجابی فلموں کے اس ولن کی ہے جو گنڈاسہ اٹھائے پورے علاقے میں دندناتا پھرتاہے جس پر کوئی اصول وضابطہ لاگو نہیں ہوتا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان کو بھارتی دانشوروں کی جانب سے یہ نصیحت کی گئی کہ پاکستان بھارت کوبڑابھاائی تسلیم کرے اور غالب قوت تسلیم کرے۔ براعطم سے باہردوستوں کو تلاش نہ کرے اس پربھٹونے کہا تھاکہ ہم بھارت کی دوستی توقبول کرسکتے ہیں بالادستی نہیں۔ بھارت کاخود کو بزورطاقت منوانے کا جنون اتنا بڑھ جاتاہے کہ وہ اقلیتوں اورنہتے لوگوں پرمظالم کی انتہا کردیتاہے بھارت کی سوچ اور انتہا پسندی کانشانہ آئے دن وہاں کے مسلمان بنتے رہتے ہیں ۔ انتہا پسند جماعتوں کا اتنا خوف بڑھ چکا ہے کہ وہاں کی مسلمان خواتین تلک لگاکرنکلتی ہیں کہ کسی ہندو جارحیت کاشکار نہ ہوجائیں ۔اسکے باوجود مسلمان خواتین کیساتھ جبراورزیادتی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔بھارت کے اندر جہاں بڑی جمہوری ریاست بڑی صنعتی طاقت اور فوجی طاقت کا خیال راسخ ہے اور اسی سوچ نے اسکی سوچ کوبھی مفلوج کردیا ہے جبکہ دوسری طرف یہ صورتحال ہے کہ علیحدگی کی تحریکوں کی وجہ سے ملک کی سا لمیت کوشدیدخطرات لاحق ہیں پنجاب میں سکھوں کا مسئلہ جوں کا تو ں ہے۔ گزشتہ سال کسان تحریک نے بھارت کے اوسان خطا کردئیے ۔ انتہاپسندی نے معاشرے میں خوف بھردیا ہے آسام، ناگالیند اور تریپورہ کے اپنے مسائل ہیں ۔عوام کے حالات ٹھیک نہیں۔ انہیں کھا نے کوٹھیک سے نہیں ملتا ۔ شودروں پر عرصہء حیات تنگ ہے دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے بھارت کی اس طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔عوام کی اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے کبھی وہ پاکستان کاہوا کھڑا کردیتاہے کبھی ایسے اقدامات اٹھاتا ہے کہ مسلمانوں کی دل آزاری ہو ۔ پاکستان نے بھی اس موقف کا اظہار کیاہے کہ بھارت میں انتہا پسند حکومت پورے خطے کیلئے خطرہ ہے ۔ بھارت ان زمینی حقائق کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ مضبوط پاکستان اور اقلیتوں کے تحفظ میںہی اسکی بقاء ہے ۔اب مسکان کی زبان سے نعرہ تکبیر کے الفاظ اورکشمیریوں کی بھارتی بربریت اور ظلم کے درمیاں اللہ اکبر کی صدائیںاس بات کا اعادہ کرتی ہیں کہ جہاں وحشت درندگی اور بربریت ہوگی وہاں جرأت مندانہ اور ایمان افروز صدائیں بلند ہونگی ۔