چوہدری محمد اسلم ربع صدی تک جماعت اسلامی گوجرانوالہ کے امیر رہے 1970ء کی دھائی میں بھی وہ گوجرانوالہ کے امیرتھے۔یہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی دائیں اوربائیں بازو یعنی سرمایہ دارانہ نظام اورکمیونزم کے حامیوں اور مخالفوں کی نظر یاتی دھائی تھی۔پاکستان میں تب قومی انتخابات کانقارہ بج چکا تھا۔جماعت اسلامی ،مسلم لیگ کے تمام دھڑے (افسوس کہ جب بھی مسلم لیگ کاذکر آتاہے تو اس کی پہچان دھڑوں کے بغیر ممکن نہیں ہوتی) جمعیتہ علماء پاکستان ،نظام اسلام پارٹی وغیرہ کاشمار دائیں بازو کی جماعتوں میں کیاجاتا تھا۔صحیح معنوں میں ماسوائے کمیونسٹ پارٹی یامزدور کسان پارٹی وغیرہ کے بائیں بازو کی باقاعدہ کوئی سیاسی جماعت نہیں تھی۔پاکستان پیپلزپارٹی سندھ میں جاگیرداروں اورپنجاب میں ابھرتے ہوئے سیاسی کارکنوں کی جماعت تھی جو روٹی ،کپڑا اور مکان کانعرہ بلند کرتے تھے۔جاگیرداری اور سرمایہ داری کے بھی خلاف تھے،بائیں بازو کے دعویدار بھی تھے مگر ذوالفقارعلی بھٹو ان سیاسی ضروریات کے محتاج رہے جوانہیں بہر صورت اقتدار میں لانے کیلئے چاہئیں تھیں۔نیشنل عوامی پارٹی کے تذکرے کے بغیر 1970ء کی سیاست کی داستانیں ادھوری رہیں گی۔یہ پارٹی صحیح معنوں میں بائیں بازو کی جماعت کہلوانے کے باوجود پختون قوم پرستی سے باہر نہ نکل سکی۔ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت شیخ مجیب الرحمان کی پاکستان عوامی لیگ بھی بائیں بازو کی جماعت نہیں تھی،بنگالی قوم پرستی اور صوبائی خودمختاری اس کا منشورتھا۔جمعیتہ علماء اسلام صوبہ سرحد(اب خیبر پختون خوا)اور بلوچستان کی بڑی جماعت تھی،سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ نظام کی سخت دشمن رہی ۔جمعیتہ کے اکابرین کاماضی ہندوستان میں سامراج دشمن تھااور اسی پروگرام کولے کروہ آگے بڑھ رہے تھے۔تاہم اسے بھی بائیں بازو کی جماعت نہیں کہا جاسکتا۔اصغر خاں ایک بڑے لیڈر بن کر ضروراٹھے مگر ان کی سیاسی جماعت "جسٹس پارٹی"ابھی پوری طرح قدم نہیں جماسکی تھی وہ اکثر وپیشتر اخبارات میں کالم لکھتے رہتے جس سے ان کے دائیں بازو سے سیاسی طورپر تعلق کا تاثر تو ابھرتا رہا مگر کسی فعال سیاسی جماعت کے بغیر یہ طے کرنا ممکن نہ تھا کہ وہ اس صف میں کہاں کھڑے ہیں۔مغربی پاکستان میں جماعت اسلامی نے پاکستان پیپلزپارٹی کی مخالفت اس طرح کی کہ اسے کفرکی حدوں سے بھی آگے پہنچادیا۔جبکہ دوسری طرف جماعت نے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور اسکے سربراہ شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک کیا ۔اس کام کیلئے ا سے ’’ فکری مواد"مغربی پاکستان سے ہی مہیا ہوتا رہا ۔یہ بات البتہ درست ہے کہ دائیں بازو کی علمبردار جماعت اسلامی ہی تھی جبکہ بائیں بازو میں پیپلزپارٹی ،نیشنل عوامی پارٹی اور ایسے نظریات رکھنے والے کو شمار کئے جاتے رہے۔کالم چوہدری محمد اسلم کے ذکر سے شروع ہوا اور بات کہاں پہنچ گئی۔جن لوگوں نے یہ نظریاتی کشاکش اور سیاسی معرکے نہیں دیکھے وہ چوہدری محمد اسلم کوشائد سمجھ نہ سکیں۔یوں توہم جب پرائمری کلاس میں تھے تب سے انہیں مصروف عمل دیکھتے رہے مگر 70ء کے آغاز میں میںگورنمنٹ کالج گوجرانوالہ پہنچ چکا تھااور سیاسی رحجان جمیعتہ علماء اسلام کی طرف تھا۔ اس لئے ان سے نظریاتی کھنچائو بھی محسوس کرتا رہا۔ مگر جب77ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایک سیاسی اتحاد"پاکستان قومی اتحاد"کاقیام عمل میں آیا توتب تک تحریک استقلال ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن چکی تھی ۔اس اتحاد میں جماعت اسلامی بھی شامل ہوئی تو چوہدری محمد اسلم صاحب سے بھی تعلق قائم ہوا۔وہ چوہدری محمد اسلم جنہیں ہم سیاسی اور نظریاتی طور پر مخالف ہی سمجھتے رہے وہ ملے تو ایک جگردار، باعمل، صالح ، اعلی منتظم اور درویش کی حیثیت سے بلکہ اس سے بھی بڑے۔چھ فٹ سے لانبا قد،باریش ،سر پرٹوپی ، سادہ لباس، سادہ خوراک اور بات کے پکے چوہدری اسلم کو شہر کابچہ بچہ جانتا تھا۔وہ ایک علمی گھر انے سے تعلق رکھتے تھے ان کے بھائی ڈپٹی کمشنر میانوالی بھی رہ چکے تھے۔"میری تحریکی یاداشتیں"ان کی خود نوشت داستان ہے۔وہ 1952ء سے لیکر 1982ء تک جماعت اسلامی گوجرانوالہ کے امیر رہے اور یہ سارے ادوار سیاسی طور پر ابتلاء ومصائب سے بھرے پڑے تھے ۔جیل جانا تو وہ ایک طرح کی پکنک ہی سمجھتے تھے۔شہر کے سیاسی حلقوں کی تاریخ ان کے بغیر ہمیشہ نا مکمل رہے گی۔وہ مولانا مودودی کے دست راست سمجھے جاتے تھے اور اس میں شک بھی کوئی نہیں۔انہوں نے1970ء کے قومی انتخابات میں گوجرانوالہ سے حصہ لیا اگرچہ کوچہ کوچہ ان کے نام سے گونج اٹھا مگر جو حشر پورے ملک میں جماعت اسلامی کاہوا چوہدری اسلم بھی اس سے نہ بچ سکے۔ربع صدی تک جماعت اسلامی گوجرانوالہ کے امیر رہنے کے بعد انہوں نے لاہور میں کینال ویو ہائوسنگ کو اپنا مسکن بنالیا۔ پھروہ امریکہ کے شہر"بغلو"کب گئے مجھے اس کا علم نہیں اگرہوتا تو گذشتہ سال میں بھی وہیں تھا،ان سے ملاقات کیلئے ضرور حاضر ہوتا اور 1970ء کی گذری سیاست ، اور اس دور کے ان فکری مغالطوںپر خوب خوب باتیں ہوتیں جنکا حاصل ضرب صفر نکلا۔ایک ہفتہ قبل صبح صبح فیس بک دیکھی تومعلوم ہوا کہ چوہدری صاحب ان تھک جدوجہد ،ناقابل ِ فراموش معرکہ آرائیوں،اور محبت کی کئی داستانیں چھوڑ کر اس جہان رنگ وبوسے وہاں چلے گئے جہاں سے کوئی واپس نہیں آیا ۔دور کے دیار میں ان کی وفات ہوئی ۔نہ ہم ان کے جنازے کو کندھا دے سکے نہ مٹھی بھر مٹی انکی قبر پر ڈال سکے نہ ان کے اہل خانہ سے دعا کرسکے۔ چلیںچوہدری صاحب اللہ کے حوالے اگر زندگی میں کبھی کوئی گستاخی آپ کی شان میں ہوئی ہوتو معاف کردینا۔بس اب آپ کی یادیں رہ رہ کرآتی رہیں گی اور ہم جماعت اسلامی گوجرانوالہ کے پرانے دفتر کودیکھ کر اپنا غم ہلکا کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔