’ چلتے ہیں دبے پاﺅں کوئی جاگ نہ جائے‘


ایک راہگیر ہاتھیوں کے باڑا کے پاس سے گزر رہا تھا۔ اس کی نظر ایک ہاتھی کے پاﺅں پر پڑی جو ایک پتلی سی رسی کے ساتھ بندھا ہوا تھا۔ یہ بات اُسے عجیب سی لگی کہ اتنا جسیم جانور جو ہلکے سے جھٹکے سے رسی کو توڑ سکتا تھا کتنے صبر کے ساتھ خود کومقیّد پائے کھڑا تھا۔ راہگیر نے دوسرے ہاتھیوں کی طرف نظر دوڑائی تو سب کے ساتھ ایک ہی ماجراپایا۔ سب کے پاﺅں تقریباً ایک ہی طرح کی رسی سے بندھے تھے۔ راہگیر سوچ میں پڑ گیا کہ اتنے بھاری بھرکم جانور پتلی سی رسیوں سے باندھ کر کیسے قابو میں رکھے گئے تھے۔ آخر کوئی وجہ تو ہو گی جو انہیں رسی کو توڑنے سے باز رکھے ہوئے تھی۔ اسے گمان ہوا کہ شاید باڑے کا مالک جادو گر ہے ۔جادو ئی اثر کی وجہ سے ہاتھیوں کو رسی ایک وزنی زنجیر دکھائی دیتی تھی اور انہیں اپنی طاقت کا احساس تک نہیں ہوپاتا تھا۔ شاید رسی نے انہیں یقین دلا رکھا تھا کہ تم بہت کمزور ہو ،حرکت کرو گے تو یہ رسی تمہارے پاﺅں کو کاٹ کر رکھ دے گی۔
راہگیر نے باڑے کے مالک سے پوچھا ،”بھئی یہ تو بتائیے، ہاتھیوں کے پاﺅں میںجو رسیاں آپ نے باندھ رکھی ہیں بظاہر بہت معمولی،پتلی اور کمزور سی دکھائی دیتی ہیں،کیا ان پر کوئی جادوئی اثر ہے، جو ہاتھیوں کو اپنی طاقت اور ظرف کا احساس تک نہیں ہونے دیتیں۔“ باڑے کا مالک بولا،”بھائی، ایسا کچھ نہیں ہے۔ در اصل جب کوئی ہاتھی کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو ہم اسے اسی سائز اور ساخت کی رسی سے باندھ دیتے ہیں۔ جب وہ رسی سے آزاد ہونے کیلئے اپنے پاﺅں کو کھینچتا ہے تو رسی اسے پاﺅں میں چبھتی ہے ۔بعض اوقات زخم بھی ہو جاتا ہے جس سے خون بہنا شروع ہو جاتا ہے۔ تکلیف کے ڈر سے وہ آہستہ آہستہ اپنا پاﺅں کھینچنا روک لیتا ہے اور ےونہی اسی رسی سے بندھے بندھے جوان ہو جاتا ہے۔ پاﺅں کے کٹ جانے کا خوف اسے مرتے دم تک اس معمولی سی رسی کا غلام بنا کے رکھتا ہے۔
ہاتھی کی طاقت اور رعب و دبدبہ سے کون واقف نہیں ہے۔ اس کی طاقت، جرا¿ت و بہادری قبل از جدید زمانہ میں جنگوں میں آزمائی جاچکی ہے۔ جس فوجی لشکر میں ہاتھی شامل ہوتے ،مخالف لشکر پر ان کی دھاک بیٹھ جاتی۔ اور بالعموم وہ لشکر جنگ جیت جاتا۔ لیکن اس کے باوجود ہاتھی کے اندر سے معمولی سی رسی کا خوف نہیں نکل سکا۔ یہ خوف ان کے ذہنی ڈھانچہ کا مستقل جزو بن چکا ہے۔ ہاتھیوں کے رسی سے وابستہ خوف کو جب ہم غلام قوموں کے اندر پائے جانے والے خوف کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو معاملہ یکساں دکھائی دیتا ہے۔ایشیا، افریقہ ہو یادنیا کے وہ تمام علاقے جہاں برطانوی یا فرانسیسی غلامی کا دور دورہ رہا ہے، آزادی ملنے کے دہائیوں بعد بھی ان میں سے ہمارے جیسی کچھ قومیں غلامی کی رسی کو اپنے پاﺅں میںبندھا محصوص کرتی ہیں۔ تاہم وہ قومیں جنہوں نے اس رسی کی اصلیت، ساخت اور اپنے زورِ بازو سے مکمل آگہی حاصل کرلی ، اُنہوں نے اس رسی کو توڑ لیا۔
ہماے پاﺅں میں پڑی رسی کی ہیئت بالکل مختلف ہے ۔بھلا ہو قائدِ اعظم اور ان کے بے لوث رفقاءکار کا کہ انہوں نے ہمیں جسمانی غلامی سے کامیابی کے ساتھ نجات دلائی۔ مگر ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود ہم نے ذہنی غلامی کو ”انتہائی خلوصِ نیّت“ سے اپنائے رکھا اور آج بھی اپنائے ہوئے ہیں ۔ دیکھا گیا ہے کہ جب کسی ہیروئن کے نشئی کو ہیروئن کی خوراک دستیاب نہیں ہو پاتی تو اس کی حالت غیر ہونا شرع ہو جاتی ہے۔ وہ خود کو بازﺅں پر دانتوں سے کاٹنے لگتا ہے۔ہم غلامی پسند لوگوں کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ غلامی کا نشہ ہماری رگوں سے ایسے مانوس ہوا ہے کہ ہم نے گورے کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے بعدایک خودکار طریقہ کار کے تحت نشے کی حالت کو قائم رکھنے کیلئے اپنے جیسے غلاموں کی غلامی کوقبول کر لیا ہے۔ انہوں نے جس رسی سے ہمارے ذہنوں کو مقیّد کر رکھا ہے ، ہم اسے توڑ تو سکتے ہیں مگر توڑنے سے ڈرتے ہیں 
نکلی نہیں ذہنوں سے ابھی خوئے غلامی
آزاد وطن اتنا بھی آزاد نہیں ہے 
آج آزادی کے پچھتر سال بعد جب ہم وطنِ عزیز کی جغرافیائی، سیاسی، معاشی،معاشرتی اور بین الاقوامی تصویر پر اجمالی سی نظر ڈالتے ہیں تو لا محالہ آنکھیںبھر آتی ہیں۔ وطن کی نس نس خوں چکاں ہے۔قوم کے شعور کوجس غلامی کی رسی کے ساتھ باندھا گیا ہے، ایک عام شہری سے لے کر ”انتہائی نصابی تعلیم یافتہ“ شہری تک اُس کا رسیاہو چکا ہے۔وہ اپنی آزادانہ رائے کے اظہارسے خوفزدہ ہے۔کیونکہ اس کی رائے کسی اور کی رائے سے بندھی ہے۔ اسے خدشہ ہے کہ اگر اس نے دن کو دن یا رات کو رات کہہ دیا تو جن بتوں کا وہ غلام ہے ان کی طرف سے پاﺅں میں ڈالی گئی رسی پاﺅں کو کاٹ کر رکھ دے گی۔اہلِ وطن سے میری درخواست ہے کہ وطنِ عزیز کی معاشی و دیگر بدحالی پر رونا دھونا بند کردیں۔ جن کے ”تمام ترگناہ“ اسمبلیوں اور عدالتوں سے بے گناہی میں ڈھل رہے ہیں، ان کی اس ” نصیب آور ی“ پر سوشل میڈیا ، اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر ان کے حق میں جشن منانا بدستورجاری رکھیں ۔ مخالفین کو اپنے ”بتوں کی فتح “ پر کوسنے دیں۔ کیوںکہ ہمیں تب تک اپنی آزادی اور خوشحالی کے بارے میںسوچنے کا حق ہی نہیں پہنچتا جب تک کہیں پرہمارا بھٹو زندہ ہے تو کہیں پرہمارا شیرِ پنجاب۔ بقولِ فیض احمد فیض ہماری حالت یہ ہو چکی ہے کہ 
چلتے ہیں دبے پاﺅں کوئی جاگ نہ جائے
غلامی کے اسیروں کی یہی خاص ادا ہے

ای پیپر دی نیشن