آزادی سے قبل ہی پاکستان کو آبی دہشت گردی میں مبتلا کرنے کےلئے اقدامات کر لئے گئے تھے۔ یکم اپریل 1948 ءکو پاکستانی نہروں کی طرف آنےوالے پانی کو بند کر دیا گیا۔ 12 سال کے طویل عرصہ کے بعد عالمی اداروں اور طاقتوں نے پانی کے عالمی قوانین کے برعکس پاکستان کو تین مشرقی دریا بھارت کے حوالے کرنے پر مجبور کیا۔ بھارت نے تو صرف رابطہ نہروں کےلئے ایک ارب روپے ادا کئے تھے جبکہ عالمی بینک سمیت کنشورسیم ممالک نے گرانٹ اور قرض کی صورت میں تربیلا منگلا ڈیم تعمیر کئے تھے۔ کشمیر پر بھارتی ناجائز قبضہ کے باوجود اس وقت کی حکومت نے نہ جانے کیوں کشمیر میں بھارت کو پاور پراجیکٹس بنانے کی اجازت دی؟ بہرحال سندھ طاس معاہدہ میں واضح کردیا گیا تھا کہ مشرقی دریاو¿ں کا پانی بھارت کا اور مغربی دریاو¿ں کے پانی پر کشمیر کی کچھ یوٹیلیٹیز کے علاوہ پاکستان کا حق ہوگا۔
یہ بات قابل غور ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدہ 1960 ءپر نظر ثانی کیوں چاہتا ہے۔ اس مقصد کےلئے بھارت نے انڈس واٹر ٹریٹی 1960 ءکو اپ گریڈ کرے کی تجویز دیدی ہے۔ بھارتی تجویز کی تفصیلات تو معلوم نہیں ہوئیں تاہم، میں سمجھتا ہوں کہ بھارت ماضی میں بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعے معاہدے پر نظر ثانی کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اسے ہماری طرف سے ناکام بنایا گیا۔ پاکستان نے ہمیشہ بھارت پر زور دیا کہ وہ موجودہ معاہدے کو اپنے خط اور روح کے مطابق نافذ کرے۔ ہم دستاویز میں کسی تبدیلی پر غور نہیں کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ 1960 ءکے معاہدے کے نتیجے میں بھارت کو تین مشرقی دریاو¿ں کا پانی مل چکا ہے۔ اب وہ پاکستان کےلئے مختص تین بقیہ دریاو¿ں (سندھ، جہلم اور چناب) کا پانی بانٹنے کا ارادہ رکھتاہے۔ کیونکہ یہ معاہدہ بھارت کو تین مشرقی دریاو¿ں کے پانی تک محدود کرتا ہے اور مغربی دریاو¿ں کے پانی کے استعمال پر پابندی لگاتا ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ بھارتی منصوبہ کے پیچھے کونسے عوامل ہیں؟1
۔زرعی مقاصد کےلئے جموں کے علاقے کےلئے مزید پانی مانگنا2۔ماہرو (Mahru) ٹنل پر دریائے چناب کا دریائے راوی میں موڑنا 3۔ بجلی کی پیداوار کےلئے غیر معمولی اسٹوریج ڈیموں کی تعمیر
پاکستان نے ابھی تک دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے پانیوں کو مستعمل بنانے کےلئے حتمی منصوبے نہیں بنائے۔ واپڈا کے اعدادوشمار بھی بتاتے ہیں کہ پاکستان سالانہ اوسطاً تقریباً 25-28MAF پانی سمندر میں گراتا ہے۔ اس تناظر میں بھارت بین الاقوامی سطح پر شور مچاتا ہے کہ پاکستان پانی ضائع کر رہا ہے اور یہ پانی پاک بھارت وغیرہ کے مشترکہ مفاد کےلئے بھارت کے ساتھ بانٹ سکتا ہے۔ اگر پاکستان بھارت کے اس منصوبے پر راضی نہیں ہوتا تو وہ بین الاقوامی تنظیموں کے پاس ©©"انڈس واٹر ٹریٹی 1960 " ءپر نظرثانی اور تبدیلی کےلئے جائے گا اور ضائع ہو جانے والے پانی کی مدد سے اپنی بقا کےلئے پانی کا مطالبہ کرے گا۔ پاکستان کے مقتدر ادارے اس اہم مسئلہ پر کیوں آنکھیں بند کئے سو رہے ہیں؟ سندھ طاس معاہدہ میں نظر ثانی پاکستان کےلئے تباہ کن ثابت ہوگی۔
عالمی ماہرین آب پاکستان کو 1960ءکی دہائی میں ہی وارننگ دے چکے تھے کہ تربیلا منگلا ڈیموں سے 1990 ءتک فائدہ ہوگا۔ آبی وسائل سے استفادہ کرنے کےلئے اس عرصہ میں پاکستان کو کالاباغ ڈیم بنانا ہوگا، اس کے 10 سال بعد بھاشا ڈیم اور اس دوران پورے Indus Cascade کا تفصیلی جائزہ لے کر پاکستان کے آبی مسائل سے نبٹنے کےلئے مکمل جامع پروگرام تشکیل دینا ہوگا۔ 1960ءکی دہائی میں عالمی بینک کے تعاون سے کی گئی Indus Basin Development کے حوالے سے اسٹڈی واپڈا ہاو¿س میں بند پڑی ہے۔ اگر ہم اس اسٹڈی کے مطابق ذرائع آب کی بہتری کےلئے بنائی گئی پلاننگ پر عمل کر لیتے تو بھارت کو سندھ طاس معاہدہ پر نظر ثانی کی بات کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن وہ تو ٹریک II پالیسی پر عمل کر رہا تھا۔ بالخصوص سندھ اور خیبر پی کے میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کالاباغ ڈیم کو نشانہ بنائے ہوئے تھا اور کچھ صرف کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا سوال اٹھائے ہوئے تھے۔ ضروری تھا کہ ہم آبی وسائل کی بہتری کےلئے جتنے بھی آبی منصوبے بنا سکتے تھے، تعمیر کرتے۔ اس طرح ڈیموں کی تعمیر کے خلاف اٹھنے والی آوازیں خود ہی خاموش ہو جاتیں۔
ابھی وقت ہے کہ واپڈا ہاو¿س میں دفن Indus Basin Development Study کو نکال کر اس کی پلاننگ پر تیزی سے عمل درآمد کیا جائے۔ یاد رکھیں! موسمیاتی تبدیلیوں کے اشارے پوری دنیا کو وارننگ دے رہے ہیں۔ اگر ہم نے اس اسٹڈی کے مطابق عمل کر لیا ہوتا تو آج سندھ اور بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے ایک انچ رقبہ بھی متاثر نہ ہوتا۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ ہر چار پانچ سال کی اوسط سے سیلاب کی آفت سے پاکستان کی اٹھتی معیشت اربوں ڈالر کے خسارے سے ڈوب جاتی ہے اور ہماری آنکھیں نہیں کھلتیں۔