یہ دنیا فانی ہے


عرض ِحال ۔۔۔۔۔۔۔ سید محمد طیب ایڈووکیٹ
                 اس چند روزہ زندگی کی حقیقت کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی لاعلم اور ناسمجھ بن کر اس کے پیچھے اندھا دھند بھاگنے کا عمل انسان ازل سے ہی کرتا چلا آ رہا ہے انسان کو بارھا قدم بہ قدم بتایا اور سمجھایا گیا ہے کہ اے نادان یہ دنیا اور زندگی محض چند دنوں کا کھیل تماشہ ہے اسکی صبح شام کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اسکا آغاز اختتام کے ساتھ نتھی ہے اور اسکی ابتدا انتہا کے ساتھ ہی کھڑی ہے انسان اس دنیا کی اصلیت کو دیکھتا بھی ہے ، جانتا بھی ہے، سمجھتا بھی ہے اور تردید بھی نہیں کر سکتا مگر پھر بھی نہ جانے کیوں نا سمجھی اورنادانی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس دنیا کی مثال اس طرح ہے کہ جیسے کوئی مسافر کسی بس سٹاپ پر کھڑا اپنی گاڑی کا انتظار کرتا ہے تھوڑی ہی دیر میں اسکی گاڑی آ جاتی ہے اور وہ اپنی منزل کی جانب روانہ ہو جاتا ہے۔کوئی بھی مسافر بس سٹاپ پر تھوڑی دیر کے انتظار کی گھڑیوں کیلئے لمبا چوڑا سامان ساتھ لے کر نہیں جاتاکیونکہ اسکو پتہ ہوتا ہے کہ اُس نے سٹاپ پر کونسا قیام کرنا ہے بلکہ اس نے تو صرف اپنی گاڑی کامحض انتظار ہی کرنا ہے اور اگر کوئی بس سٹاپ پر اپنے گھر سے سامان لیکر سجا کر بیٹھ جائے تو لوگ اُسے دیوانہ،ناسمجھ اور مجنون کہیں گے اور کوئی نہ کوئی اسکو پوچھ بھی لے گا کہ اے بھائی صاحب آپ بس سٹاپ پر گاڑی کا انتظار کرنے آئے ہیں یا آپ نے یہاں رات رہنی ہے۔ بس بالکل یہی مثال اس دنیا کے شب و روز کی ہے جس سے لوگ نا سمجھی میں نہ جانے کیوں دل لگا کر بیٹھ گئے ہیں وہ یہ سمجھ چلے ہیں کہ شاید انہوں نے یہاں سدا رہنا ہے ،یہ پکے اور بلندوبالا مکانات ، لمبی چوڑی گاڑیاں ، وسیع و عریض محلات ، کارخانے ، فیکٹریاں ، مال و اسباب اور نہ جانے کیا کچھ انواع و اقسام کے کھانے اورہر طرح کی راحت و آسائش کا سامان ، گھروں کے رنگ برنگے اور جدید ڈیزائن ، روشنیوں کیلئے دیدہ زیب قمقمے ، اعلیٰ کوالٹی کا ماربل ، نفیس قسم کی ٹائلیں ، قیمتی لکڑی کے دروازے ، بیش قیمتی باتھ روم کا سامان ، باغ باغیچے ، قیمتی پودے ، صوفے ، بیڈ اور نہ جانے کیا کچھ ایک چھت تلے حضرت انسان نے اکٹھا کر رکھا ہوتا ہے یا وہ اسی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔ ان مادی اور عارضی چیزوں کے حصول کی دوڑ میں وہ رشتے ، ناطے ، اصول ،اخلاقیات اور حلال و حرام سب کچھ بھول جاتا ہے اور ان چیزوں کے حصول کیلئے دن رات ایک کر دیتا ہے اس عمل کے دوران نہ تو اسے کچھ اور سنائی دیتا ہے اور نہ ہی دکھائی دیتا ہے بس نفسا نفسی کے اس کھیل میں وہ اپنی زندگی پوری کر دیتا ہے اس دنیا میں کون ہے کہ جو ’’ٹک‘‘ سکا  اور کون ہے کہ جو یہاں صدا بیٹھ سکا۔ بس پچاس ، ساٹھ ، ستر ، اسی سال اور آخر کار کوچ ہی کرنا ہے۔ قدرت گاہے بگاہے ، وقتاً فوقتاً انسان کو حقیقت یاد دلانے کیلئے اشارے کنائے میں کچھ نہ کچھ بتلاتی رہتی ہے مگر تھوڑے ہی ہیں کہ جو سمجھ پاتے ہیںارے اے انسان ذرا آنکھیںکھول کر تو دیکھ کہ چند روز قبل ترکی اور شام میں کیا ہوا؟ بڑے بڑے محلات ایک پل میں ریزہ ریزہ ہو گئے ہستی بستی دنیا اُجڑ کر رہ گئی لوگوں کی عمر بھر کی محنت چند سیکنڈ میں غارت ہو گئی۔ ان بیچاروں کا سب ہی کچھ خاک میں مل گیا دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کا سب مال اسباب فنا ہو گیا پختہ اور خوب صورت عمارتیں کھنڈروں میں تبدیل ہو گئیں زندگی کے خواب دھرے کے دھرے رہ گئے  یہ جائیدادیں، مکانات اور محلات ریزہ ریزہ ہو گئے اور اُن کے مکین بیچارے لا چارگی میں راہی ملک عدم ہو گئے۔ خاندانوں کے خاندان بے چارے اس دنیا سے خالی ہاتھ رخصت ہو گئے یہ زمین اور یہ جائیدادیں ادھر ہی رہ گئیں اور اس پر ملکیت کے دعویدار بے یارومددگار یہاں سے رخصت ہو گئے۔ہر وقت میرا مال ، میری جائیداد اور میری دولت کے راگ الاپنے والے انسان تو ذرادیکھ تو سہی آج تیرے پاس کچھ نہیں بچا آج تو خالی ہاتھ کھڑا ہے اے انسان توکیوں نہیں سمجھ رہاکہ تیری دولت عزت شہرت طاقت جاہ و جلال کچھ بھی تیرے ساتھ نہیں جائے گا یہ چند روزہ زندگی کا دھوکے کا سامان ہے جس مال و دولت کے پیچھے تو بھاگ رہا ہے وہ کبھی تیرے کام نہیں آئے گی۔ بس صرف تیرے اعمال ہی تیرے ساتھ جائیں گے۔ بُلھے شاہ نے کیا خوب کہا ہے 
نہ کر بندیا میری میری 
نہ تیری   نہ میری
چار دناں دا میلہ
دنیافیر مٹی دی ڈھیری
 

ای پیپر دی نیشن