بھارتی ہزار سالہ منصوبہ ۔ہماری ڈنگ ٹپائو پالیسی

اقتدارکے کھیل کے سبھی پس پردہ کردار ننگے ہو چکے ہیں۔ یہاں کھیل کی بجائے لفظ جنگ استعمال کرنا زیادہ مناسب رہے گا۔ کھیل کے کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں۔ جبکہ جنگ میں ہر قیمت پر فتح حاصل کرنا ہی مقصد ہوتا ہے ۔ کوئی اخلاقیات نہیں ہوتیں۔ ہمارے سبھی با اختیار ادارے عوامی مسائل سے لاتعلق اور صرف اپنے اقتدار کو طول دینے میں کوشاں رہتے ہیں۔ ہمارے قومی قتل نامے پر سول عسکری دونوں مہریں صاف پڑھی جا سکتی ہیں۔ 
مہذب ملک اپنی خفیہ سفارتی ڈاک ایک عرصہ گزرنے کے بعد پبلک کیلئے اوپن کر دیتے ہیں۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ امریکہ اور پبلک ریکارڈ آفس برطانیہ کے خفیہ دستاویزات ’’خفیہ پیپر‘‘کے نام سے معروف دانشور جناب قیوم نظامی نے اردو میں ترجمہ کی ہیں۔ اس میں سے امریکن قونصل خانہ لاہور کا 23دسمبر1952کا خفیہ ٹیلی گرام یوں ہے : ’’جنرل ایوب نے بیان کیا۔ اس نے سرکردہ سیاستدانوں سے کہا ہے کہ انہیں ذہنی طور پر دل کی گہرائیوں سے مغرب کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کر لینا چاہئے ۔ اس نے کہا ، پاک فوج سیاستدانوں کو اپنی گرفت سے نکلنے کی اجازت نہیں دے گی اور پاکستان کے عوام کو بھی کنٹرول میں رکھا جائیگا۔جنرل ایوب نے کہا کہ اسے اندازہ ہے کہ وہ بڑی ذمہ داری لے رہے ہیںکیونکہ فوج کا فرض ہے کہ وہ ملک کی حفاظت کرے‘‘۔ مزے کی بات ہے کہ دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی ۔ غیر جمہوری مزاج سیاستدان اپنی ملکی فوج کو بیرکوں تک محدود رکھ ہی نہیں سکتے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے ضمنی انتخاب کے موقعہ پر وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں مسلم لیگی امیدوا رکے خلاف ووٹ ڈالنا ملک سے غداری قرار دے رہے تھے۔ وہ اپنی حکومت کو ریاست کے معنوں میں استعمال کر رہے تھے ۔ یہ جمہوری انداز فکر نہیں تھا۔ وہ اپنی سیاسی جماعت کو ہر قیمت پر کامیاب دیکھنا چاہتے تھے ۔ جمہوریت کا مستقبل سیاست کے اخلاقی وجود سے مشروط ہوتا ہے ۔ اگر سیاسی عمل اپنے اخلاقی وجود سے بے نیاز ہو جائے تو کوئی آئینی موشگافی اس کا تحفظ نہیں کر سکتی ۔ سیاسی اداروں کو راہ راست پر رکھنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ سمیت سب کا جمہوری مزاج لازم ہے ۔ جمہوری رنگ ڈھنگ کچھ اور ہوتے ہیں ۔ابھی دوسری جنگ عظیم ختم نہیں ہوئی تھی کہ برطانیہ میں الیکشن آگیا۔ اس کا انعقاد وقت پر ہی کروایا گیا۔ جنگ کی وجہ سے الیکشن کا التواء کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ ان جنگی حالات میں بھی الیکشن ہوا۔ دوکھلی انگلیوں سے قوم کو وکٹری کا نشان دینے والے وزیر اعظم چرچل کو اس الیکشن میں شکست ہو گئی ۔ قوم کا خیال تھا کہ اگرچہ چرچل جنگ جیت رہے ہیں لیکن زمانہ امن کیلئے وہ موزوں نہیں۔ اس سے وہ غرق نہیں ہو گئے کہ پانچ برس انہیں حکومت سے باہر رہنا پڑا۔ انہوں نے اپوزیشن کا وقت خوش دلی سے گزارا۔ اگلے الیکشن میں وہ دوبارہ منتخب ہو گئے ۔ 
ادھر ہمارے ہاں آنے والے الیکشن سے گھبرا کر سکندر مرزا نے ملک میں مارشل لاء لگا دیا۔ صدر کے عہدہ کا محافظ آئین تھا۔ جب آئین ہی نہ رہا تو وہ کیسے رہ سکتے تھے ؟سو !جنرل ایوب خاں سیاہ و سفید کے مالک ہو گئے ۔ ہر فوجی حکمران کو آخر کار سول روپ دھارنا پڑتا ہے ۔ جنرل ایوب خاں نے قوم کو 62؁ء کا آئین دیا۔ 62؁ء کے آئین پر بحث کرتے ہوئے عاصمہ جیلانی کے والد ممبر قومی اسمبلی ملک غلام جیلانی نے اسمبلی میں بحث کرتے ہوئے صدر ایوب سے کہا: آپ آئین وغیرہ کو چھوڑیں اور سیدھی طرح اپنی بادشاہت کا اعلان کر ڈالیں۔ آپ ظالم ہوئے تو ہم جنگلوں میں جا کر اللہ کے حضور گڑگڑائیں گے ۔ یا اللہ ہم یہ زمانہ رو پیٹ کر گزار لیں گے ، ہمیں ولی عہد نیک، رحمدل اور منصف مزاج عطا کریں۔
بدقسمتی یا خوش قسمتی سے ہمارے سبھی لیڈر ایک ہی ٹکسال سے تیار ہو کر آتے ہیں۔ بھٹو ، نواز شریف اور عمران خان ایک ہی سرکار کے بھجوائے ہوئے ہیں۔ بھٹو اپنی بے پناہ عوامی مقبولیت کے باوجود ایک حد میں رہے کہ وہ اپنی حدود سے بخوبی آگاہ تھے ۔ لیکن وہ پھر بھی اصلی حکمرانوں سے برداشت نہ ہو پائے ۔ دیانتدار تھے لیکن اقتدار کی خاطر اپنے لبرل مزاج کے خلاف جمعہ کی چھٹی اور شراب جوئے کی بندش پر اتر آئے ۔میاں نواز شریف کے بارے میں شکیل درانی سابق چیئرمین واپڈا نے الزام لگایا کہ انہوں نے موٹر ووے کی لمبائی غیر ضروری طور پر 70کلو میٹر بڑھا دی۔ مسلم لیگ نواز نے اپنا تازہ منشور دیا ہے ۔ ’’پاکستان کو ۔۔۔نواز دو‘‘۔ اللہ جانے یہ پاکستان کو نوازنے والی بات ہے یا پھر انہیں نواز شریف کو ہی دوبارہ نوازنے کا پروگرام ہے ۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر نے بڑی پڑھی لکھی بات کی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ جب تک آئی پیز پاکستان میں ہیں بجلی سستی نہیں ہو سکتی ۔اس پر خرم دستگیر جھٹ بولے ، عمران خان کابینہ میں چار آئی پیز ہیں۔ قوم کا سوال ہے کیا خرم دستگیر ن لیگی آئی پیز کی تعداد بتانا پسند فرمائیں گے؟ کیا ن لیگ ، کیا پی ٹی آئی اور کیا پیپلز پارٹی ، ہمارا حکمران طبقہ ایک ہی ہے اور ایک ہی دل و مزاج کا۔توشہ خانہ کی گھڑیوں نے ہیروں کے ہار والے یوسف رضا گیلانی اور ریاست مدینہ کے عمران خان کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا ہے ۔ آج عمران خان اپنی ’’بڑھکوں‘‘ کے باعث محبوبیت اور مقبولیت کی انتہائی بلندیوں پر کھڑے ہیں۔ آج تو کوئی یہ تلخ حقیقت بھی سننے کو تیار نہیں کہ عمران خان ، نواز شریف اور بینظیر کے میثاق جمہوریت کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے شدید رد عمل کا نام ہے ۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ وہی اسٹیبلشمنٹ آج انہیں اقتدار سے باہر رکھنے کاہر جتن کر رہی ہے ۔لیکن بظاہر عوامی سطح پر اسے دقت پیش آرہی ہے۔ جمہوریت کے لئے عوام کی رائے کا احترام لازم ہے ۔ سیاسی جماعتوں کی جڑیں عوام میں بڑی گہری ہوتی ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں شخصیتوں کی مقبولیت اور پرستش کے سہارے کھڑی ہیں۔ ایک سیاسی لیڈر کو مرشد قرار دیا جارہا ہے ۔ مرشدسوال جواب ، پوچھ گچھ اور پرسش سے بالا ہوتا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ سمیت کسی اہم سیاسی جماعت کا منشور انقلابی نہیں۔ سبھی سٹیٹس کو، کے حامی اور اس طرح حالات کو جوں کا توں رکھنے والے ہیں۔ قرضے ، مصنوعی بارش ، مصنوعی الیکشن ، بس ڈنگ ٹپائو پالیسیوں سے ملک چلایا جارہا ہے ۔ 
ادھر پڑوس میں ایک قیامت برپا ہے ۔ کسی کو اس کی فکر ہی نہیں۔ کسی کا ادھر دھیان ہی نہیں۔ مودی نے رام مندر کا افتتاح کرکے جواہر لعل نہروکے سیکولرہندوستان کو ایک متعصب اور متشدد ہندو ریاست میں بدل دیا ہے ۔ مودی کہہ رہے ہیں ’’یہ پل صدیوں کے انتظار کے بعد آیا ہے ۔ اس پل کو کھونا نہیں ہے ۔انڈیا کے نئے عہد کا آغاز ہے ۔ ہمیں اس وقت آئندہ ایک ہزار سال کے بھارت کی بنیاد رکھنی ہے‘‘۔
(یہ کالم تحریک انصا ف کے حماعت یافتہ آزاد ارکان کی کثیر تعداد کی کامیابی کے اعلان سے پہلے لکھا گیا) 

ای پیپر دی نیشن