ارشاد احمد ار شد
پاکستان کی معروف قدیمی درس گاہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور اس کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کو بدنام کرنے کے لیے جو جھوٹ بولے گئے وہ سب غلط ثابت ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر اطہر محبوب اور یونیورسٹی کو بدنام کرنے کا اسیکنڈل جب منظر عام پر آیا تو اسی وقت ہی معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا ہر شخص سمجھ گیا تھا کہ یہ سازش ہے اور الزام تراشی ہے۔ اس کے بعد جو حقائق منظر عام پر آئے اور خاص کر وزیر اعلیٰ پنجاب کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے جو ٹربیونل بنایا اس نے بھی اپنی آزادا نہ تحقیقات کے بعد یہ بتا دیا ہے کہ آئی یو بی کو بدنام کرنے کے لیے جو سکینڈل بنایا گیا وہ سب جھوٹ تھا۔ اب آئیں مختصراَ َ اس واردات کا جائزہ لیتے ہیں۔ کسی بھی ادارے میں انتظامی اعتبار سے چیف سکیورٹی آفیسر کا عہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، چیف سکیورٹی آفیسر ادارے کے حفاظتی معاملات کا ذمہ دار ہوتا ہے، لہٰذا ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سب سے پہلے یونیورسٹی کے چیف سکیورٹی آفیسر ریٹائرڈ میجر اعجاز شاہ کو ٹارگٹ کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے جو سیکنڈل گھڑا گیا وہ یہ تھا کہ یونیورسٹی کے چیف سکیورٹی آفیسر سے منشیات اور اس کے موبائل سے 5500 یونیورسٹی کی طالبات کی نازیبا ویڈیوز برآمد ہوئی ہیں۔ اس سے یہ تاثر دینا مقصود تھا کہ یونیورسٹی کا چیف سیکورٹی آفیسر ایک جرائم پیشہ اور اخلاق باختہ شخص ہے۔ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر یونیورسٹی کے کچھ دیگر سٹاف کے بارے میں تواتر کے ساتھ منشیات اور ویڈیوز برآمدگی کی خبریں چلائی گئیں جنھیں اور سن کر یوں لگتا تھا جیسے یونیورسٹی میں اساتذہ اور سٹاف نہیں اٹھائی گیر ہیں اور یہ اسلامیہ یونیورسٹی نہیں بلکہ جرائم پیشہ افراد اور منشیات کا اڈاہے۔
یہ ایسی ہولناک سازش تھی کہ جس نے ملک بھر میں غم وغصے اور اضطراب کی کیفیت برپا کردی۔ نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی یونیورسٹی کے بارے میں سوالات اٹھنے لگے۔ ان حالات میں ضروری تھا کہ اس سازش کا پردہ چاک کیا جاتا چنانچہ ڈاکٹر اطہر محبوب نے سب سے پہلے خود کو اور اپنے سٹاف کو احتساب اور خون ٹیسٹ کروانے کے لیے پیش کیا۔ آئی جی پنجاب کو مراسلہ لکھ کر آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔کئی ادارہ جاتی کمیٹیاں قائم کی گئیں جن میں جنوبی پنجاب سے ہائر ایجوکیشن کے ممبران بھی شامل کیے گئے تھے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی دو ڈی آئی جی لیول کے پولیس اہلکار اور ایک صوبائی سیکرٹری پر مشتمل ایک اعلیٰ تحقیقاتی کمیٹی بھیجی۔ ان سب نے مکمل تفتیش اور تحقیق کے بعد کہا کہ اس سکینڈل کا کوئی وجود نہیں ہے نہ کوئی ویڈیو بنی اور نہ برآمد ہوئی ہے۔ اس سلسلہ میں مزید کارروائی یہ کی گئی کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو ایک حاضر سروس جج کے تقرر کے لیے درخواست ارسال کردی۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے جسٹس سردار محمد ڈوگر کو بطور ٹربیونل جج نامزد کیا تاکہ وہ یونیورسٹی کے طلبہ کے منشیات استعمال کرنے ،بلیک میلنگ اور جنسی استحصال کرنے کی تفتیش کریں۔
جسٹس سردار ڈوگر نے پوری تحقیق کے بعد جو رپورٹ تیار کی اس کے درج ذیل نکات ہیں :
یونیورسٹی کی حدود میں نہ تو مبینہ منشیات استعمال ہوئیں اور نہ ہی جنسی استحصال ہوا۔ اور اس ضمن میں کوئی گینگ بھی نہیں پایا گیا جو ایسا ارتکاب کرتا ہو۔ کسی پکے ثبوت یا شہادت کے بغیر ہی جنسی ہراسگی یا منشیات کے استعمال کے الزام پر پولیس نے اس کیس کو مس ہینڈل کیا اور یوں یونیورسٹی کو بدنام کیا گیا۔ یونیورسٹی میں طالبات یا ارکان جامعہ کے جنسی ہراسانی یا منشیات کے استعمال میں ملوث ہونے کی خبریں سوشل میڈیا کے لوگوں نے پھیلا ئیں جن سے یونیورسٹی کو بدنام کیا گیا اور طالبات اور پروفیسرز کی عزت اور وقار پر بھی حرف آیا۔
ٹربیونل نے جن افراد کو سازش رچانے کا ذمہ دار ٹھہرایا ان میں جمشید ڈی ایس پی /سی آئی اے ، ایس ایچ او تھانہ دراوڑ ، سید محمد عباس ڈی پی او بہاولپور ، عبداللہ نامی ٹاؤٹ پولیس جس کے خلاف کریمنل مقدمے کی سفارش کی گئی اور اقرار الحسن سید ٹی وی اینکر ، یوٹیوبر /ولاگر اور ثاقب مشتاق یوٹیوبر اور بلاگر (لودھراں) شامل تھے۔ ٹربیونل نے اپنی رپورٹ نے واضح طور پر لکھا کہ ان ولاگر نے بغیر تصدیق کے ولاگ کیے اور یونیورسٹی کو بدنام کیا۔ جسٹس سردار ڈوگر کی اس رپورٹ سے بھی یہ بات بالکل واضح ہورہی ہے کہ آئی یو بی ، اس کے سٹاف سابق وی سی اور طالبات کو ایک دانستہ سازش کے تحت بدنام کیا گیا ہے۔
یہاں ایک بہت اہم سوال بھی ہے کہ آئی یوبی کے خلاف یہ گھناؤنی سازش کیوں کی گئی اور اس کے مقاصد کیا تھے؟ اس کا جواب یہ ہے پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے چار سال کے عرصہ میں یونیورسٹی کے تعلیمی اور تدریسی معیار کو بہتر بنانے کے لیے جو کاوشیں کیں انھیں ناکام بنانا مقصود تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب ایک طرف امریکی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہیں،نامور ماہرِ تعلیم اور مثالی منتظم ہیں تو دوسری طرف وہ دین سے ، قرآن سے ، علما سے اور مساجد سے گہری محبت رکھتے ہیں۔انھوں نے اپنے دور میں یونیورسٹی کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے بے شمار اقدامات کیے ہیں،مثلاً طلبہ وطالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے روایتی طریقہ کار سے ہٹ کر اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئیں ، لائق اور ذہین طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لیے وظائف جاری کیے گئے،ایسے مفید ڈگری پروگراموں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا جن کی معاشرے میں بہت زیادہ ڈیمانڈ ہے ، طلبہ وطالبات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر متعدد شفٹوں میں کلاسوں کا اجرا کیا گیا ، مختلف کیمپس میں ضروریات کے مطابق سہولیات میں اضافہ ہوا ، آمدو رفت کے لیے پہلے سے موجود ٹرانسپورٹ کی سہولیات کو نہ صرف بہتر کیا گیا بلکہ ان میں اضافہ بھی کیا گیا ، صحت مند سرگرمیوں کے لیے کھیلوں اور دیگر ہم نصابی سرگرمیاں جاری کی گئیں۔
یہ وہ اقدامات تھے جنھوں نے ایک طرف یونیورسٹی کے معیار تعلیم کو چار چاند لگا دیے تو دوسری طرف اس کی مقبولیت میں بھی بے حد اضافہ ہونے لگا۔طلبہ وطالبات جوق در جوق یونیورسٹی کا رخ کرنے کے لیے اور یونیورسٹی کی کلاسز تنگ داماں کا شکوہ کرنے لگیں۔فیکلٹیز جو پہلے صرف 6 تھیں ان کی تعداد 13 تک جاپہنچی۔ پہلے یونیورسٹی میں کل وقتی اساتذہ 400تھے پھر ایک وقت آیاجب کل وقتی اساتذہ کی تعداد 400سے بڑھ کر 1400تک جاپہنچی۔جب لائق فائق اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ یونیورسٹی کی زینت بنے توطلبہ وطالبات کی تعداد میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا۔ ڈاکٹر اطہر محبوب کے اسلامیہ یونیورسٹی میں آنے سے پہلے طلبہ وطالبات کی تعداد صرف 13 ہزار تھی جو 65 ہزار تک جاپہنچی۔ اسی طرح ڈاکٹر اطہر محبوب کے اس جامعہ میں آنے سے پہلے طالبات کی تعداد صرف 4 ہزار تھی جو 27 ہزار تک چلی گئی۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ ڈاکٹر اطہر محبوب کے یونیورسٹی میں آنے کے بعد والدین کا خصوصاً بچیوں کے حوالے سے یونیورسٹی پر اعتماد میں اضافہ ہوا۔
یہ ہے ڈاکٹر اطہر محبوب کی تعلیمی کاوشوں کا مختصر تذکرہ۔ ان کاوشوں کی وجہ سے علاقے میں موجود بعض نجی تعلیمی اداروں کے کاروبار مانند پڑنے لگے تھے اس کے ساتھ یہ خبریں بھی گردش کررہی تھیں کہ ڈاکٹر اطہر محبوب کو بطور وی سی مزید توسیع دی جائے گی۔ اس لیے مبینہ طور پر یونیورسٹی کو بدنام کرنے اور ڈاکٹر اطہر محبوب کا دوسری ٹرم کے لیے راستہ روکنے کی خاطر یہ ڈرامہ پلے کیا گیا۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ڈرامہ جنھوں نے پلے کیاانھوں نے اچھے مسلمان اور شہری ہونے کا ثبوت نہیں دیا بلکہ چند ٹکوں کی خاطر اپنے ہی منہ پر کالک ملی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے عدالتی ٹربیونل نے اس شرمناک ڈرامہ کے جن کرداروں کی نشاندہی کی ہے ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے اور ڈاکٹر اطہر محبوب کو بطور وی سی توسیع دی جائے تاکہ انھوں نے پسماندہ علاقے کی جس یونیورسٹی کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کا جوسفر شروع کیا تھا وہ چلتا رہے۔