لاہور(کلچرل رپورٹر)سماجی سوچ وفکر کو نئی تازگی دے کر فیض فیسٹیول اختتام پذیر ہوگیا۔پاکستان سمیت دْنیا بھر سے ہزاروں لوگ اس عظیم ڈائیلاگ سرگرمیوں کاحصہ بنے۔ادیب و شاعر، دانشور، سکالرز و مندوبین معاشرہ کو نئی جہتیں متعارف کروانے میں کامیاب رہے۔ پاکستان ایک عظیم ملک ہے، اس کی دھرتی زبان وادب کی پرورش کرنے کیلئے نہایت زرخیر ہے۔ فیسٹیول میں فیض احمد فیض کے فن وشخصیت کے نئے پرت دریافت کئے گئے۔ فیض احمد فیض کی شاعری رجحان ساز، روایت کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ انکی شاعری کی لطف و لذت انکی ذات اور زمانے کا پتہ دیتی ہے۔ فیض فیسٹیول میں عوامی دلچسپی اس بات کا ثبوت ہے کہ انکی شاعری میں قوم کی قوم کا دل دھڑکتا ہے۔ فیض فیسٹیول کا تیسرا اور آخری دن 35سے زائد نشستیں منعقد ہوئیں۔ نشست ’’آج تم یاد بے حساب آئے‘‘ میں عذرا محی الدین اور ارشد محمد سے قاسم جعفری سے گفتگو کی۔سخن افتخار میں افتخار عارف سے سید شعمون ہاشمی انکے خیالات معلوم کئے۔لہو کا پرچم،داستاں ہے وہی،پردہ چشم پہ،پڑھنے والوں کے نام،گلستان سعدی کی کہانیاں، اْردو زبان کی خوشبو، فیض کا فیض، لاہور کہانی اور عشق، ورثہ نوجوان ہاتھوں میں، دھرتی کی ملکائیں، عشاق کے قافلے،کسے وکیل کریں، مہرو وفا کے باب، خورشید کوئی سر محفل کے نام سے مشاعرہ بھی منعقد ہوا۔ورکشاپ، ڈاکومنٹری، اوپن مائیک، ڈرم سرکل، کتاب گاڑی بھی تقریبات کا حصہ تھیں۔ساقیا! رقص کوئی رقص صبا کی صورت میں رقص پرفارمنس پیش کی گئی۔