سب سے پہلی بات یہ ہے کہ سیاسی طور پر نابالغ افراد کو ووٹ کا حق ہونا چاہیے یا نہیں اس پر ایک گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی یہ ہے ان سیاسی نابالغوں کی آوازیں سن سن کر ملک کے نامی گرامی سیاسی تجزیہ نگار بھی کہیں نہ کہیں حقائق سے پردہ پوشی کرتے ہیں یا پھر عوام تک درست پیغام پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے، ممکن ہے وہ زمینی حقائق سے واقفیت رکھتے ہوں لیکن ردعمل سے بچنے کے لیے کھل کر اظہار نہ کرتے ہوں، اگر یہ حالات ہیں تو کیا انہیں مقبول بیانیے کی رو میں بہہ جانا چاہیے میرے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہیے، اچھی معلومات کے ساتھ، زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے، عوام کی درست انداز میں رہنمائی کرنی چاہیے، میں کہتا ہوں کہ ہمارے ملک میں سوچنے کے معیار ، تعلیم کی حالت، معاشی مشکلات کو سامنے رکھا جائے تو ووٹ کے لیے اٹھارہ سال کی عمر نامناسب ہے اس پر نظر ثانی ہونی چاہیے یہ ایک غیر مقبول بات ہے لیکن یہ ایک مسئلہ ضرور ہے اس پر توجہ دینی چاہیے۔ اگر آپ اس عمر میں ووٹ کا اختیار دینا چاہتے ہیں تو غربت ختم کریں، بے روزگاری ختم کریں، جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کریں، تعلیمی نظام کو تخلیقی بنائیں، رٹے کا نظام ختم کریں، لوگوں کو ذہنی طور پر آزاد کریں، مضبوط بلدیاتی نظام قائم کریں تا کہ ووٹرز کی بچپن سے تربیت ہو ، بلدیاتی نمائندے فون کال اور ای میل پر حاضر ہوں، بلدیاتی نمائندوں کی پرکشش تنخواہیں مقرر کریں۔ اگر تو آپ یہ سب کام کر سکتے ہیں تو اٹھارہ سال کی عمر میں ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت پر غور کر سکتے ہیں اگر آپ یہ یا اس سے ملتی جلتی چیزیں یا اس سے بہتر چیزیں نہیں کر سکتے تو ووٹنگ کے اس تباہ کن نظام سے جان چھڑائیں۔ پاکستان کے حالات اس نظام کی اجازت نہیں دیتے، ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ایک نوجوان جسے آپ بے خوف ہو کر گاڑی چلانے کی اجازت نہ دیں اسے آپ ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار کیسے دے سکتے ہیں ۔ ملک میں تمام سیاسی جماعتوں کو ملک کے بہتر مستقبل کی خاطر ایسے قوانین پر کام کرنا ضروری ہے۔ جب تک چھوٹے چھوٹے سیاسی فوائد کیلئے ہم قومی مفاد کو قربان کرتے رہیں گے اس وقت تک ملک و قوم کے بہتر مستقبل کہ خاطر ضروری قانون سازی نہیں کر سکیں گے۔
آٹھ فروری کی شام سے آج تک میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا پر طوفان آیا ہوا ہے۔ لوگ بغیر سوچے سمجھے لکھتے اور بولتے چلے جا رہے ہیں۔ بھلے بھلے افراد بھی جو سامنے نظر آ رہا ہے وہی گفتگو کر رہے ہیں، کچھ لوگ ضرور ہیں جو بہت مناسب بات چیت کر رہے ہیں۔ وہ لوگ جو حقائق سے باخبر ہیں اور پختہ سیاسی سوچ کے حامل ہیں ان کی طرف سے مناسب گفتگو سننے کو ملتی ہے لیکن ایسے افراد تعداد میں کم ہیں ۔ بہرحال اگر عام انتخابات کے نتائج کو دیکھا جائے سب سے اہم معاملہ آزاد امیدواروں کا ہے۔ بہت سے لوگ ان آزاد امیدواروں کو دیکھ کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ شاید یہ لوگ پاکستان تحریک انصاف کا ہی حصہ رہیں گے اور جو پی ٹی آئی کا حصہ نہیں ہیں وہ مختلف سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کریں گے۔ آزاد امیدواروں کی طرف سے مختلف سیاسی جماعتوں میں شمولیت کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ سب یہ جاننا چاہتے ہوں گے کہ کون سے لوگ پاکستان تحریک انصاف کا حصہ رہیں گے تو اس میں سب سے پہلے وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے انتخابات سے قبل قرآن کریم پر حلف دے رکھا ہے کہ کامیابی کے بعد وہ کسی اور سیاسی جماعت کا حصہ نہیں بنیں گے ۔ وہ آزاد امیدوار جنہوں نے حلف نہیں دیا وہ کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ ہو سکتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے پاس زیادہ سے زیادہ چالیس سے پچاس درمیان نشستیں ہوں گی۔ چونکہ بہت سے سیاست دانوں کے ذاتی مفادات ہوتے ہیں وہ نظام یا حکومت سے باہر رہنا برداشت نہیں کر سکتے اس لیے انہیں ہر حال میں حکومت کا حصہ رہنا ہوتا ہے اور اس کے لیے وہ جو ممکن ہوتا ہے وہ کرتے ہیں۔ امکانات یہی ہیں کہ مرکز میں مسلم لیگ ن حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہو گی جب کہ پنجاب میں مسلم لیگ اکثریتی جماعت ہو گی تو یہاں انہیں حکومت سازی میں مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
میں یہ تو نہیں کہتا کہ پی ڈی ایم ٹو ہو گی لیکن اس سے ملتی جلتی ضرور ہو گی۔ اتحادی جماعتوں میں کیا فارمولا طے پاتا ہے، کون کہاں نظر آتا ہے یہ چیزیں قابل بحث ضرور ہیں لیکن مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی حکومت میں دو سب سے بڑی جماعتیں ہوں گی۔
جہاں تک تعلق بانی پی ٹی آئی عمران خان کا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے نو مئی کے واقعات سے سبق سیکھا ہے ان کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی سنجیدہ قیادت بھی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ریاست کے سب سے اہم اور ملکی دفاع کے ضامن ادارے کے ساتھ اس حد تک محاذ آرائی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ بانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کے سنجیدہ افراد میں یہ سوچ حوصلہ افزا ہے۔ شاید غلطی کا احساس ہی ہے جس وجہ سے عمران خان جب سے قیدی ہوئے ہیں کوئی احتجاج نہیں ہوا، توڑ پھوڑ نہیں ہوئی اور تشدد کی سیاست نظر نہیں آ رہی اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ جیل جانے کے بعد کہیں نہ کہیں تعاون ضرور کر رہے ہیں۔ کاش ان کی طرف سے مفاہمت کی یہ سوچ تحریک عدم اعتماد سے پہلے یا اس کے بعد ہوتی تو ملک کو اتنا نقصان ہرگز نہ ہوتا، نہ اتنا بڑا سیاسی و معاشی بحران ہوتا نہ ملک میں اتنی تقسیم ہوتی، نہ انتشار ہوتا، نہ اتنی نفرت اور تشدد کی فضا قائم ہوتی۔ بہرحال ہمیں آگے بڑھنا ہے، ماضی کو بدلا تو نہیں جا سکتا لیکن بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے کوشش تو ہو سکتی ہے۔ اس لیے لگ بھگ پچیس کروڑ لوگوں کے اس ملک کو جس نے وقت کے ساتھ چھبیس اور ستائیس کروڑ ہونا ہے چند سو لوگوں کو ان کروڑوں پر رحم کرتے ہوئے اپنے آپ کو بدلنا ہو گا ورنہ یاد رکھیں یہ دم توڑتی، لولی لنگڑی جمہوریت کسی بھی وقت دم توڑ سکتی ہے۔
آخر میں صوفی تبسم کا کلام
جانے کس کی تھی خطا یاد نہیں
ہم ہوئے کیسے جدا یاد نہیں
ایک شعلہ سا اٹھا تھا دل میں
جانے کس کی تھی صدا یاد نہیں
ایک نغمہ سا سنا تھا میں نے
کون تھا شعلہ نوا یاد نہیں
روز دہراتے تھے افسانہ دل
کس طرح بھول گیا یاد نہیں
اک فقط یاد ہے جانا ان کا
اور کچھ اس کے سوا یاد نہیں
تو مری جان تمنا تھی کبھی
اے مری جان وفا یاد نہیں
ہم بھی تھے تیری طرح آوارہ
کیا تجھے باد صبا یاد نہیں
ہم بھی تھے تیری نواؤں میں شریک
طائر نغمہ سرا یاد نہیں
حال دل کیسے تبسم ہو بیاں
جانے کیا یاد ہے کیا یاد نہیں
آزاد امیدواروں کی نئی منزل اور سیاسی نابالغوں کے لیے مفت مشورہ !!!!!
Feb 12, 2024