پوپ بینڈکٹ کا ناموس رسالت کے قانون کے خاتمہ کا عاجلانہ تقاضہ..... حکومت پاکستان خود اس کا دوٹوک جواب دے

عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ بینڈکٹ نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تحفظ ناموس رسالتؐ کے قانون کو ختم کرے اور اس قانون کے تحت سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون آسیہ کو رہا کرے۔ گزشتہ روز ویٹی کن سٹی میں 170 ممالک کے سفارتکاروں سے سالانہ خطاب کرتے ہوئے پوپ نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ مسلم ممالک عیسائی اقلیتوں کو حملوں سے تحفظ فراہم کریں‘ انکے بقول گورنر پنجاب کے قتل کے بعد اس جانب فوری توجہ دینے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ انہوں نے یہ دشنام طرازی بھی کی کہ تحفظ ناموس رسالتؐ کا قانون ناانصافی اور تشدد کا جواز فراہم کرتا ہے‘ اس لئے حکومت پاکستان اس قانون کو ختم کرنے کیلئے ضروری اقدامات کرے۔ انہوں نے مصر‘ عراق اور نائیجیریا میں عیسائیوں پر ہونیوالے حالیہ حملوں کی بنیاد پر مطالبہ کیا کہ ان ممالک کی حکومتیں عیسائی برادری کو تحفظ کی فراہمی یقینی بنائیں۔
دوسری جانب دینی و سیاسی جماعتوں اور قائدین نے ناموس رسالتؐ کا قانون ختم کرنے سے متعلق پوپ بینڈکٹ کے مطالبے کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے پاکستان کے اندرونی اور مذہبی معاملات میں کھلی مداخلت‘ تہذیبوں کے درمیان تصادم کی کھلی دعوت اور دنیا کو جنگ کی آگ میں جھونکنے کے تباہ کن ایجنڈہ کا حصہ قرار دیا ہے اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پوپ کے اس بیان پر سرکاری سطح پر احتجاج کرے‘ سنی اتحاد کونسل نے پوپ کے بیان کیخلاف جمعۃ المبارک 14 جنوری کو ملک بھر میں یوم احتجاج منانے کا اعلان کیا ہے۔ دینی و سیاسی قائدین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ناموس رسالتؐ کا قانون ختم کرنے کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دی جائیگی۔
ناموس رسالتؐ کے قانون کے حوالے سے اور اس قانون کی زد میں آنیوالی ملعونہ آسیہ کی رہائی کیلئے پوپ نے جس ہذیانی کیفیت میں بیان دیا ہے‘ وہ نہ صرف یہ کہ انکے منصب کے شایان شان نہیں بلکہ یہ بیان کی کسی مذہب کے ایک روحانی پیشوا کے بجائے کسی متعصب‘ کٹ حجتی اسلام دشمن کا نظر آتا ہے‘ جس کے ذریعہ محسنِ انسانیت اور رحمت اللعالمین حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دینِ برحق اور انکی ذاتِ مبارکہ کے بارے میں مغلظات بکنے کی کھلی چھوٹ کی ترغیب دی گئی ہے اور مذہبی رواداری کے بجائے اشتعال انگیز جنونیت کا راستہ دکھایا گیا ہے جو لازماً تہذیبوں کے ٹکرائو پر منتج ہو سکتا ہے۔ پوپ بینڈکٹ اس سے پہلے بھی متعدد مواقع پر آفاقی دین اسلام کے حوالے سے متنازعہ بیانات دے چکے ہیں اور مادر پدر آزاد مغربی میڈیا پر دیئے جانیوالے حضرت نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی مذموم حرکات کی بھی آزادیٔ اظہار رائے کے جواز کے تحت تائید کر چکے ہیں جبکہ ان گستاخانہ خاکوں کی اشاعت سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے‘ دنیا کے کم و بیش ہر ملک میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور ان گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی مذموم حرکت پر سویڈش اخبار کے ایڈیٹر پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا جس نے بعدازاں ضمیر کی خلش کے تابع اپنی اس قبیح حرکت پر مسلم امہ سے معافی بھی مانگی مگر پوپ بینڈکٹ جو پادریوں کے ننوں کیساتھ جنسی تعلقات اور گرجا گھروں میں نوجوان لڑکوں کیساتھ ان کے قبیح فعل کی حمایت کرکے بھی خاصے متنازعہ ہو چکے ہیں‘ شانِ رسالت مآبؐ کی گستاخی کو آزادی ٔ اظہار کے کور میں لاتے لاتے اب ناموس رسالتؐ کے قانون کو بھی ناانصافی پر مبنی قرار دیکر اسکے خاتمہ کا مطالبہ کر رہے ہیں جو کسی متعصب اسلام دشمن کا مؤقف ہی ہو سکتا ہے۔
دین اسلام کے بارے میں پوپ بینڈکٹ اور اس قبیل کے دوسرے آزادی ٔ اظہار اور انسانی حقوق کے تحفظ کے نام نہاد علمبرداروں کا تعصب اپنی جگہ مگر کوئی مسلمان اپنے عقیدے اور ایمان کی بنیاد پر کسی بھی نبی اور پیغمبر کی شان میں گستاخی کا تصور تک نہیں کر سکتا‘ تمام مذاہب اور بشمول حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ انکے پیغمبروں کا احترام مسلمان اپنے ایمان کا حصہ سمجھ کر کرتے ہیں جبکہ ناموس رسالتؐ کا قانون صرف حضرت نبی ٔ کریم ؐ کی ناموس و عزت کے تحفظ کا متقاضی نہیں بلکہ تمام انبیاء کرام کی عزت کا تحفظ اس قانون کے زمرے میں آتا ہے‘ اس لئے یہ قانون تو مسیحیوں کے بھی فائدے میں ہے‘ جبکہ اس قانون کی وجہ سے ہی گستاخانِ رسول قانون و انصاف کی عملداری کے دائرے میں آکر اپنے خلاف کسی عاشقِ رسولؐ کے غازی علم الدین شہید والے کردار سے بچے ہیں‘ اس تناظر میں تو ناموس رسالتؐ کے قانون کے برقرار رہنے کے بارے میں کوئی دو رائے ہونی ہی نہیں چاہیے جبکہ پوپ بینڈکٹ نے توہین مسیحیت کے قانون کے خاتمہ کا کبھی تقاضہ نہیں کیا حالانکہ اس قانون کے تحت صرف حضرت عیسیٰ ؑ کی توہین پر ہی سزائے موت نہیں دی جاتی‘ بلکہ پادری کی توہین بھی اسی قانون کے تحت اتنی ہی مستوجب سزا ہے۔ پوپ کو بخوبی علم ہو گا کہ ملعون سلمان رشدی کیخلاف برطانیہ میں مسلمانوں کے مظاہروں کے دوران برطانوی پارلیمنٹ سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ توہین مسیحیت کے قانون میں ترمیم کرکے دیگر انبیاء کی توہین پر بھی اس قانون کے اطلاق کی گنجائش نکالے مگر یہ مطالبہ اس جواز کے تحت مسترد کر دیا گیا کہ توہینِ مسیحیت کے قانون میں کسی قسم کی ترمیم ممکن نہیں ہے۔ یہ قانون صرف برطانیہ و آئیرلینڈ میں ہی نہیں‘ سارے یورپ میں لاگو ہے۔
اس تناظر میں ناموس رسالتؐ کے قانون میں ترمیم یا اسکے یکسر خاتمہ کے مطالبہ میں مسلمانوں اور دین اسلام سے نفرت اور تعصب کے سوا کسی دوسرے جذبے کا عمل دخل نظر نہیں آتا‘ اس لئے ایسا عاجلانہ تقاضہ کرکے مسلم امہ کے مذہبی جذبات مجروح و مشتعل کرنے کی راہ ہموار کی جائیگی تو یہ صورتحال عالمی امن کی تباہی پر ہی منتج ہو گی کیونکہ کوئی بھی کلمہ گو مسلمان اپنے پیارے نبی محسن انسانیتؐ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتا اور اپنے ایمان کی تکمیل کیلئے حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کٹ مرنے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔
جہاں تک گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کا معاملہ ہے تو یہ معاملہ اب قانون و انصاف کی عدالت میں جا چکا ہے‘ اس کیس کا ملزم جیل میں ہے اور اس کیخلاف مقدمے کی سماعت جاری ہے‘ اس لئے مقدمہ کی کارروائی کے دوران اس کیس کے بارے میں کسی قسم کی رائے یا مؤقف کا اظہار اور اسکی آڑ میں ناموس رسالت کے قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ عدالتی کارروائی میں مداخلت کے زمرے میں آئیگا‘ اس لئے پوپ بینڈکٹ ہو یا کوئی اور‘ اسے قانون و انصاف کی عملداری میں کسی قسم کی مداخلت کی قطعاً اجازت نہیں دی جا سکتی جبکہ ناموس رسالت کے قانون کیخلاف پوپ کا بیان کسی مخصوص ایجنڈے کے تابع نظر آتا ہے جو پوپ کے منصب کے تقدس میں کسی پاپ کی آمیزش کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ محسنِ انسانیت پر نازل ہونیوالی آخری الہامی کتابِ حکمت قرآن مجید کی سورۃ الکافرون میں اس ارشاد باری تعالیٰ کے تحت کفر اور دین برحق میں امتیاز پیدا کر دیا گیا ہے کہ ’’تمہارا دین تمہارے لئے اور ہمارا دین ہمارے لئے‘‘۔ خالقِ کائنات نے اس دین ِبرحق سے کائناتِ ارض و سما کو منور رکھنے کیلئے رحمت اللعالمین کا انتخاب کیا اور ملائیکہکے علاوہ ہر جن و انس اور چرند پرند پر بھی حضور کی تحدیث و تعظیم کو لازم فرمایا ہے تو رسالت مآبؐ کی شان میں ہلکی سی گستاخی بھی بھلا کیسے برداشت ہو سکتی ہے۔ جب ناموس رسالت کا تحفظ ہمارے ایمان کا حصہ ہے تو تقاضائے ایمان نبھانے سے کون ہچکچائے گا؟ ناموس رسالت کا قانون نہیں ہو گا تو ہر عاشقِ رسول خود قانون اور خود انصاف بن جائیگا…؎
یہ شہادت گہہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں‘ مسلماں ہونا
چونکہ پوپ بینڈکٹ نے گورنر پنجاب کے وقوعۂ قتل کے حوالے سے ناموس رسالت کے قانون کے خاتمہ اور ساتھ ہی آسیہ کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے اس لئے حکومت پاکستان کو خود اعلیٰ سطح پر پوپ کے اس بیان کا نوٹس لینا چاہیے اور انہیں اپنے ملک کے قانون و انصاف کی عملداری کے پراسس سے آگاہ کرنا چاہیے۔ انہیں یہ باور کرانے کی بھی ضرورت ہے کہ ناموس رسالت کے تحفظ کیلئے پوری قوم اپنے جذبۂ ایمانی کے تحت متحد و پرعزم ہے اور سنی اتحاد کونسل کے زیر اہتمام کراچی کی تحفظ ناموس رسالت کی ریلی ملحدوں کی آنکھ کھولنے کیلئے کافی ہونی چاہیے۔ پوپ ناموس رسالت کے قانون کے حوالے سے اپنے مؤقف سے رجوع کرلیں ورنہ اسلامیانِ پاکستان ہی نہیں‘ پوری مسلم امہ یکجہت و یکجان ہے اور ناموس رسالت پہ قربان ہونے کو تیار ہے۔ یہ کسی قانون کا نہیں‘ عقیدے اور ایمان کا تقاضہ ہے۔ جب علم الدین شہید نے ایک شاتم رسولؐ کو جہنم رسید کیا تھا‘ اس وقت کونسا قانون رسالت موجود تھا‘ قائداعظمؒ کے پایہ کے وکیل انکے وکیل تھے اور اقبالؒ ایسے بیرسٹر نے بھی کہا تھا ’’اج ترکھان دا پتر ساڈے توں بازی لے گیا اے‘‘ اور تاثیر مرحوم کے والد ڈاکٹر تاثیر اسکی تکفین اور جنازے میں سب سے آگے آگے تھے۔
جوبائیڈن کا دورہ افغانستان و پاکستان
امریکی نائب صدر جوبائیڈن غیر اعلانیہ دورے پر افغانستان پہنچ گئے۔ وہ آج پاکستان آئینگے اور سیاسی و فوجی قیادت سے ملاقاتیں کرینگے۔
آج امریکیوں کی سب سے زیادہ توجہ اور زور شمالی وزیرستان میں آپریشن پر ہے۔ امریکہ آپریشن کیلئے سیاسی و عسکری قیادت پر فوری آپریشن کیلئے دباؤ بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ اس کیلئے کبھی لالچ دیا جاتا ہے کبھی دھمکی اور کبھی میڈیا کے زور پر بلیک میل کیا جاتا ہے۔ جوبائیڈن ابھی امریکہ سے افغانستان اور پاکستان کے دورے کیلئے روانہ بھی نہیں ہوئے تھے کہ ٹائم نے خبر جاری کر دی کہ غیر مستحکم پاکستان دنیا کی سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا خطرہ کم کرنا ہو گا۔ دوسری طرف سی آئی اے کے سابق اعلیٰ عہدیدار بروس ریڈل نے کہا کہ پاکستان خطرناک ترین ایٹمی میدان میں ترقی کرتا ملک ہے‘ پاکستان نے امریکہ سے کئی بار ڈبل گیم کی اس سے پوچھا جائے کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ امریکیوں کے طوفانی دورے‘ آگ اگلتے تبصرے اور تجزیے سب پاکستان کو شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن پر آمادہ کرنے کے حربے ہیں۔ امریکہ نے سوات آپریشن کی ہدایت کی سیاسی قیادت نے انکار کیا تو صدر زرداری کو اوباما اور انکی انتظامیہ نے نااہل قرار دے ڈالا زرداری صاحب امریکہ کیلئے روانہ ہو چکے تھے۔ اوباما سے ملاقات سے قبل آپریشن کی ہدایت کر دی‘ جس پر نااہلی اہلیت میں بدل گئی اور ہنوز امریکہ کیلئے قابل قبول ہیں۔ امریکی مطالبات پر سرجھکائے چلے جاؤ تو درست معاملات ملکی مفادات کیمطابق چلانے پر امریکہ ڈنڈا نکال لیتا ہے۔ اب جوبائیڈن اپنے دورے میں پاکستان پربھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کیلئے دباؤ ڈالیں گے۔پاکستان آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ آج کے حکمران عوامی ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آئے ہیں امریکہ نے چور دروازے سے ان کو اقتدار نہیں دلایا۔ یہ جواب دہ بھی پاکستانی قوم کوہیں۔ پھر امریکہ کے سامنے جھکے چلے جانا بہادری نہیں۔ نہ صرف شمالی وزیرستان میں آپریشن کے حوالے سے عسکری قیادت کی طرح سیاسی قیادت کو بھی سخت موقف اختیار کرنا چاہئے بلکہ ڈرون حملوں پر بھی شدید احتجاج کرتے ہوئے فی الفور بند کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد موجود ہے اسکے مطابق پاکستانی حدود میں داخل ہونیوالے ڈرون مار گرائے جائیں‘ قومی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کیا جانا چاہئے۔ امریکہ اپنی امداد کے برتے پر پاکستان کے داخلی امور میں مداخلت کرتا ہے۔ یہ امداد اسکے منہ پر دے ماری جائے اور خود انحصاری کی راہ اختیار کرتے ہوئے روکھی سوکھی کھا کر خود کو امریکی جنگ سے الگ کر لیا جائے۔
سمجھوتہ ایکسپریس کی تحقیقات
امریکہ پاکستان پر مسئلہ کشمیر کے بغیر بھارت سے مذاکرات شروع کرنے پر دبائو بڑھا رہا ہے جبکہ دفتر خارجہ نے بھارت کے قائم مقام ڈپٹی کمشنر کو دفتر طلب کر کے سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کی تحقیقاتی رپورٹ مانگ لی۔ امریکہ اپنے آپکو امن کا چیمپئن گردانتا ہے لیکن پوری دنیا میں امن و امان کو نہ صرف تہہ و بالا کر رہا ہے بلکہ بھارت کی سرپرستی بھی کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا جو 63 سال سے نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم ڈھا رہا ہے۔ بھارت کے ہاتھ کشمیریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں لیکن امن کے پھریرے لہرانے کا داعی امریکہ اسے جنوبی ایشیا میں سپر پاور بنانے کی کوششوں میں مگن ہے، سات سمندر پار سے اوباما آواز لگاتے ہیں کہ ہم دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف ہیں۔ اسی نعرے کی بنا پر انہوں نے افغانستان اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی لیکن اسے بھارت کی کشمیر میں دہشت گردی اور انتہا پسندی نظر نہیں آ رہی، یہ دوغلی پالیسی نہیں تو اور کیا ہے؟
آر ایس ایس کے گرفتار دہشت گرد کے اقبال جرم کے بعد سمجھوتہ ایکسپریس اور حیدرآباد کی مساجد میں دھماکے کرنیوالے دہشتگردوں کو کیفر کردار تک پہنچائے، سوامی آسیم آنند نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ آر ایس ایس کی سینٹرل کمیٹی کے ممبران اور سنیل جوشی نے بھی مجھے بتایا تھا کہ اجمیر شریف میں دھماکوں کا مقصد ہندوئوں کو درگاہ پر جانے سے روکنا تھا، ان اعترافات کے بعد بھارتی حکومت کو بغیر کسی تردد کے ان ملزمان کو گرفتار کر کے پاکستان کو تحقیقات سے آگاہ کرنا چاہئے۔ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کو 4 سال ہونیوالے ہیں لیکن بھارت ابھی تک لیت و لعل سے کام لے رہا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہندو انتہا پسند تنظیمیں القاعدہ اور طالبان سے زیادہ طاقتور اور خطرناک ہیں‘ اس کا راہول گاندھی بھی اقرار کر چکے ہیں۔ امریکہ کو بھارت کی مدد کرتے ہوئے انکے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہئے۔ جہاں تک پاکستانی حکومت کا پیاز کی بھارت کو سپلائی روکنے کا معاملہ ہے۔ وہ بالکل درست ہے۔ جب تک اپنے ملک کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں‘ اس وقت تک کوئی بھی چیز کسی بھی ملک کو برآمد نہیں کرنی چاہئے اور بھارت کو تو بالکل بھی نہیں‘ اسے برآمد کرنے سے بہتر ہے کہ سمندر میں پھینک دیا جائے۔ ہماری حکومت سستے داموں اشیائے خورد و نوش برآمد کرتی ہے۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد وہ ہی چیزیں مہنگے داموں درآمد کی جاتی ہیں۔ بھارت میں پیاز مہنگا ہو یا سستا ہمیں اپنے مفادات پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...