شروع بازی۔ اب!!

شروع ہے بازی جیت ہار کی
سو سنار کی‘ اک لوہار کی
جیوے کھوسہ‘ جیوے بابر
خیر ہو‘ اسحاق ڈار کی
کھیل ہے پورا دس نکاتی
سنیے ٹک ٹک گھڑی سناتی
اب کے آتی بہار کی رُت
دیکھ‘ کس کو ہے کیا دکھاتی
راس آئے ملن کا موسم
یاکہ شام فراق چھائے
ادھر ادھر کا کوئی نجومی
اداس لوگوں کو یہ بتائے
نصیب میں ان کے کیا لکھا ہے
یہ جو کراچی میں ہو رہا ہے
ہے اس میں کس کس کا ہاتھ کتنا؟
بتائے انجام اس کا‘ کیا ہے
نیا ہے کیسا یہ سال آیا
کہ صدر کو یہ خیال آیا
وہ مانگیں امریکہ سے سکیورٹی
ہمیں یہ سن کر ملال آیا
ہے صدر کو یہ سجھائی کس نے
ادھر توجہ دلائی کس نے
وہ صدر ہیں اور ”مرد حر“ ہیں
خود اعتمادی مٹائی کس نے
ہیں ملک میں سارے ان کے اپنے
نہ دیکھیں وہ یہ ڈرانے سپنے
دکھائیں آنکھیں وہ دشمنوں کو
لگیں گے سب ان کی مالا جپنے

ای پیپر دی نیشن